اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی کابینہ تحلیل نہیں کی جا رہی بلکہ ا س کی ”رائٹ سائزنگ“ ہو گی۔ اعلیٰ حکومتی ذرائع نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد مجموعی طور پر 18 وزارتیں متاثر ہوں گی‘ ان میں سے 5 وزارتیں صوبوں کو منتقل کی جا چکی ہیں جبکہ مزید 8 وزارتوں کی منتقلی کا کام 30 جون سے قبل مکمل ہو جائے گا۔ ذرائع کے مطابق گذشتہ رات صدر‘ وزیراعظم اور پارٹی کے سینئر رہنماوں کے اجلاس میں کابینہ کی رائٹ سائزنگ کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس سلسلے میں آئندہ ہفتے کے دوران بعض اقدامات ہو سکتے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں وزرائے مملکت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے جبکہ وفاقی وزرا کی کارکردگی کو بھی پرکھا جائے گا۔ پارٹی کی قیادت کابینہ کے آئندہ سائز اور اس میں وزرا برقرار رکھنے یا فارغ کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گی۔ ذرائع کے مطابق صوبوں کو جانے والی 5 وزارتوں کے وفاقی وزرا کو ابھی تک ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا یہ وزرا اب بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔ حکومت کے سائز کو کم کرنے کے لئے بعض ملتے جلتے کام کرنے والے ڈویژنوں کو باہمی مدغم کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق گذشتہ رات کے اجلاس میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات کے ایشو پر بات ہوئی تھی۔ وزیر داخلہ نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کی یادگار بنانے کے اخراجات پارٹی برداشت کرے گی‘ اس کے لئے سرکاری فنڈز استعمال نہیں کئے جائیں گے۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے شرکا کو ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں بتایا۔ دوسری جانب نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے کابینہ کو چھوٹا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ تعداد مختصر رکھی جائے گی جس کا مقصد اخراجات میں کمی کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر اور وزیراعظم کے درمیان کابینہ کو چھوٹا کرنے پر مکمل طور پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے دس نکات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کابینہ کی تعداد کم کرنا ہمارے ایجنڈا کا حصہ ہے‘ امید ہے قوم کی توقعات کے مطابق چھوٹی کابینہ بنے گی۔ ذرائع کے مطابق پورٹس اینڈ شپنگ کارپوریشن کا اضافی چارج نوید قمر کو دینے کا فیلہ کیا گیا ہے۔ صوبوں کو منتقلی کے علاوہ کچھ وزارتیں ضم بھی کی جائیں گی۔ چند وزرا کو اضافی چارج دئیے جائیں گے۔ دوسری جانب ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کو تحلیل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ میں ردوبدل کیا جائے گا۔ صدارتی ترجمان کا کہنا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں کابینہ میں کمی کی جائے گی۔ اس بارے میں وفاقی وزیر طالاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ میں وسیع پیمانے پر ردوبدل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اپنے بیان میں قمر زمان کائرہ نے کہا کہ کابینہ میں تبدیلی کا فیصلہ صدر اور وزیراعظم نے مشاورت سے کیا گیا ہے۔ ردبودل کی وجہ پندرہ وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی ہے اس کا مقصد وفاقی کابینہ کا حجم کم کرنا ہے۔ وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے بھی کہا ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے اتفاق رائے سے کابینہ میں رائٹ سائزنگ کی جا رہی ہے۔ جوڈیشل کمشن کے اجلا س میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمشن ججوں کی تعیناتی میں شفافیت کا اہم فورم ہے، ہم چاہتے ہیں کہ انتظامیہ کے فیصلوں میں بھی شفافیت کو کابینہ کمیٹی آمروں کے دور میں پیدا ہونے والی خرابیاں دور کرنے کیلئے کام کر رہی ہے، پرائس کنٹرول فارمولا رواں ماہ آ جائے گا۔ ملازمین کی غیرقانونی برطرفی کی اجازت نہیں دیں گے، این آر او کیس کے لئے ہو سکتا ہے کہ کوئی وکیل پوسٹ چھوڑ کر آ جائے۔ ججوں کی تقرری میں بنچ، بار اور متعلقہ حلقوں کے ذریعے جانچ پڑتال سے شفافیت کو فروغ ملے گا اور حکومت اس نظام کو مستحکم کرنے کے لئے مزید اقدامات کرے گی۔ صرف ججوں کی تعیناتی میں ہی شفافیت نہیں بلکہ انتظامیہ کے فیصلوں میں بھی نظر آئے گی۔ وفاقی کابینہ نے اداروں کی تنظیم نو کے لئے جو کمیٹی قائم کی ہے اس نے اس درجن سے زائد اداروں کے بارے میں غور مکمل کرلیا ہے ہماری خواہش ہے کہ جو خرابیاں آمروں کے دور میں پیدا ہوئی ہیں انہیں دور کریں۔ 24 جنوری سے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو رہا ہے جس میں امن وامان سمیت دیگر امور پر بحث ہو گی۔ مہنگائی کی اس لہر میں منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور لوٹ مار کرنے والوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ گذشتہ رات پیپلزپارٹی کی قیادت کا اجلاس تین گھنٹے سے زائد دیر جاری رہا جس میں کابینہ کی رائٹ سائزنگ کابھی فیصلہ کیا گیا جن محکموں کو وزارتوں میں تبدیل کیا گیا تھا انہیں ریشنلائز کریں گے، جب ان سے پوچھا گیا کہ لطیف کھوسہ کے گورنر پنجاب بننے کے بعد این آر او کیس میں حکومت کی پیروی کون کرے گا تو انہوں نے کہا کہ وکیلوں کی کوئی کمی نہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی وکیل اہم عہدہ چھوڑ کر اس کیس کی پیروی کے لئے آ جائے۔ وزیر قانون کے جواب پر صحافی ہنس پڑے۔