رفیق عالم ۔۔۔
گورنمنٹ کالج جو اس وقت گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ہے۔ اس کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے اور وطن عزیز کی درس گاہوں میں اسے ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اس درس گاہ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل سکے۔ اس تعلیمی ادارے میں دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی شخصیات نے علم حاصل کیا اور اس علم کے زور پر وہ آج بھی زندہ اور تابندہ ہیں۔ اس درس گاہ کا سب سے بڑا اعزاز یہاں برصغیر پاک و ہند کی اہم ترین شخصیت حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا تعلیم حاصل کرنا اور مسلمانان ہند کو خواب غفلت سے بیدار کرکے انہیں ایک نئی فکر دینا ہے جس کی بدولت پاکستان معرض وجود میں آیا۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والا یہ ملک انہی کے افکار سے روشنی لے کر آج بھی دنیا میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت اس دو قومی نظریہ کو پاکستانیوں کے دلوں سے ختم کرنے کے لئے اپنی مذموم حرکتیں کرتا رہتا ہے تاہم مقام افسوس ہے کہ ہمارے ملک کے اندر بھی کچھ بھارتی شردھالو اپنی بساط کے مطابق اس کے پاکستان دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اس کے دست و بازو بننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
اپنے غیر ملکی آقاﺅں کے ان ”آلہ کاروں“ نے چند روز قبل اس عظیم درسگاہ میں پطرس بخاری کے نام سے منسوب بخاری ہال میں ایک محفل عیش و عشرت سجائی جس میں اخباری اطلاعات کے مطابق جام بھی چھلکائے گئے۔ انتظامیہ نے ارداتاً ایک ”معروف ڈانسر“ کو مدعو کیا جس نے بھارتی فلموں کے انتہائی فحش گانوں پر جسم تھرکایا ”دیدار“ کرایا اور اس کام میں اسے چند دیدہ دلیر اور روشن خیال اساتذہ کی بھی معاونت حاصل رہی۔
اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر نہایت روشن خیال اور آمر مطلق پرویز مشرف کے منظور نظر ڈاکٹر خالد آفتاب ہیں۔ انہوں نے ایسی محفل سجا کر قوم کو پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی اسی طرح کی بے غیرتیوں کی یاد تازہ کر دی۔ انہوں نے اس عظیم تعلیمی درسگاہ کی عظمت و حرمت کو مدنظر رکھا نہ ہی اپنے وقار اور قومی غیرت کو۔ اس محفل میں صوبہ پنجاب کے وزیر تعلیم جو کئی اور وزارتوں کے انچارج وزیر بھی ہیں، پوری طرح ان ”جوان“ مناظر سے محظوظ ہوتے رہے۔ اور اپنے بااختیار ”وزیر“ ہونے کا ایک ثبوت فراہم کرتے رہے۔
یہ ایسی معمولی بات نہیں جو نظرانداز کر دی جائے یا جس پر مٹی ڈال دی جائے۔ یہ نظریہ پاکستان کی نفی اور دو قومی نظریہ پر ایک کاری ضرب لگانے کی کوشش کے مترادف ہے۔ یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ اس کا کھوج لگانے کے لئے کسی کمیٹی یا انکوائری کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک ناقابل معافی اور نہایت قابل مذمت جرم ہے۔
اس محفل کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے۔ اس وقت ہمارا وطن سیاسی و معاشی بحرانوں اور صوبائی و علاقائی تعصبات کا شکار بنا ہوا ہے۔ اس ملک میں جاری دہشت گردی اور بدامنی کی ختم نہ ہونے والی خونیں لہر ہے۔ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز محسوس نہیں ہوتی۔ بلاشبہ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان ملک کی لوٹی ہوئی دولت اور معاشی ناہمواریوں کو روکنے میں مصروف عمل ہے۔ لیکن اکیلی سپریم کورٹ کیا کیا کرے؟ ہم اپنی قومی غیرت کا جنازہ خود نکال رہے ہیں، اس طرح کی حرکتوں سے اپنے غیر ملکی آقاﺅں کو خوش کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ کالج میں جو کچھ ہوا، وہ قوم کے لئے بالکل ناقابل برداشت ہے۔ اس کے پس پردہ وجوہات بھی پوشیدہ نہیں۔ چند سال قبل تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین جناب مجید نظامی نے تعلیمی اداروں میں نظریہ پاکستان کو فروغ دینے اور نسل نو کی نظریاتی تعلیمی و تربیت کی خاطر ”پاکستان آگہی پروگرام“ کے انتہائی موثر سلسلے کا آغاز کروایا جس کے انتہائی دوررس اثرات برآمد ہو رہے ہیں۔ اب تک دس لاکھ بچے یا بچیاں طلبا یا طالبات اس پروگرام میں حصہ لے چکے ہیں۔ اس کام نے پاکستان کے دشمنوں اور ان کے پروردہ عناصر کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ اسی نظریاتی لہر سے گھبرا کر ان عناصر نے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اخلاق باختہ پروگراموں کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ نئی نسل اپنے مقصد زندگی سے بیگانہ ہو کر اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں سے بے خبر رہ کر محض لہوولعب میں مشغول ہو جائے تاکہ دشمن کے لئے پاکستان کو خدانخواستہ تسخیر کرنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ جناب مجید نظامی کی قیادت میں قوم سازی کا یہ عظیم الشان کام اللہ تعالی کی تائید اور نصرت سے آگے ہی بڑھتا چلا جائے گا اور دشمن اپنے مکروہ عزائم میں ناکام ہو کر رہے گا۔ ہم آہنی ہاتھوں سے اس کا مقابلہ کریں گے کیونکہ پاکستانی قوم کے پاس محترم مجید نظامی کی شکل میں ایک مرد آہن موجود ہے جو نہ صرف اسی درس گاہ کا فارغ التحصیل ہے بلکہ تحریک قیام پاکستان میں ان کی جدوجہد سے بھی ہر کوئی واقف ہے۔ وہ علامہ محمد اقبالؒ کی فکر اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نظرئیے اور عمل کے امین ہیں۔ انہوں نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے تسلسل کے ساتھ تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ اسی لئے بھارت اور یہاں موجود بھارت نواز حلقے انہیں بھارت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔ بے شک! یہ ان کے لئے حب الوطنی کی سب سے بڑی سند ہے۔ قوم خادم اعلی پنجاب سے جو بذات خود ایک راوین ہیں، بجا طور پر مطالبہ کرتی ہے کہ وہ صوبائی وزیر تعلیم اور وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب کو برطرف کرنے کے ساتھ ساتھ اس پروگرام کے دیگر محرکین کو بھی کیفر کردار تک پہنچائیں اور پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں اس قسم کے مخرب اخلاق پروگراموں پر سختی سے پابندی عائد کر دیں۔
گورنمنٹ کالج جو اس وقت گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ہے۔ اس کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے اور وطن عزیز کی درس گاہوں میں اسے ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اس درس گاہ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل سکے۔ اس تعلیمی ادارے میں دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی شخصیات نے علم حاصل کیا اور اس علم کے زور پر وہ آج بھی زندہ اور تابندہ ہیں۔ اس درس گاہ کا سب سے بڑا اعزاز یہاں برصغیر پاک و ہند کی اہم ترین شخصیت حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا تعلیم حاصل کرنا اور مسلمانان ہند کو خواب غفلت سے بیدار کرکے انہیں ایک نئی فکر دینا ہے جس کی بدولت پاکستان معرض وجود میں آیا۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والا یہ ملک انہی کے افکار سے روشنی لے کر آج بھی دنیا میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت اس دو قومی نظریہ کو پاکستانیوں کے دلوں سے ختم کرنے کے لئے اپنی مذموم حرکتیں کرتا رہتا ہے تاہم مقام افسوس ہے کہ ہمارے ملک کے اندر بھی کچھ بھارتی شردھالو اپنی بساط کے مطابق اس کے پاکستان دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اس کے دست و بازو بننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
اپنے غیر ملکی آقاﺅں کے ان ”آلہ کاروں“ نے چند روز قبل اس عظیم درسگاہ میں پطرس بخاری کے نام سے منسوب بخاری ہال میں ایک محفل عیش و عشرت سجائی جس میں اخباری اطلاعات کے مطابق جام بھی چھلکائے گئے۔ انتظامیہ نے ارداتاً ایک ”معروف ڈانسر“ کو مدعو کیا جس نے بھارتی فلموں کے انتہائی فحش گانوں پر جسم تھرکایا ”دیدار“ کرایا اور اس کام میں اسے چند دیدہ دلیر اور روشن خیال اساتذہ کی بھی معاونت حاصل رہی۔
اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر نہایت روشن خیال اور آمر مطلق پرویز مشرف کے منظور نظر ڈاکٹر خالد آفتاب ہیں۔ انہوں نے ایسی محفل سجا کر قوم کو پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی اسی طرح کی بے غیرتیوں کی یاد تازہ کر دی۔ انہوں نے اس عظیم تعلیمی درسگاہ کی عظمت و حرمت کو مدنظر رکھا نہ ہی اپنے وقار اور قومی غیرت کو۔ اس محفل میں صوبہ پنجاب کے وزیر تعلیم جو کئی اور وزارتوں کے انچارج وزیر بھی ہیں، پوری طرح ان ”جوان“ مناظر سے محظوظ ہوتے رہے۔ اور اپنے بااختیار ”وزیر“ ہونے کا ایک ثبوت فراہم کرتے رہے۔
یہ ایسی معمولی بات نہیں جو نظرانداز کر دی جائے یا جس پر مٹی ڈال دی جائے۔ یہ نظریہ پاکستان کی نفی اور دو قومی نظریہ پر ایک کاری ضرب لگانے کی کوشش کے مترادف ہے۔ یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ اس کا کھوج لگانے کے لئے کسی کمیٹی یا انکوائری کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک ناقابل معافی اور نہایت قابل مذمت جرم ہے۔
اس محفل کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے۔ اس وقت ہمارا وطن سیاسی و معاشی بحرانوں اور صوبائی و علاقائی تعصبات کا شکار بنا ہوا ہے۔ اس ملک میں جاری دہشت گردی اور بدامنی کی ختم نہ ہونے والی خونیں لہر ہے۔ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز محسوس نہیں ہوتی۔ بلاشبہ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان ملک کی لوٹی ہوئی دولت اور معاشی ناہمواریوں کو روکنے میں مصروف عمل ہے۔ لیکن اکیلی سپریم کورٹ کیا کیا کرے؟ ہم اپنی قومی غیرت کا جنازہ خود نکال رہے ہیں، اس طرح کی حرکتوں سے اپنے غیر ملکی آقاﺅں کو خوش کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ کالج میں جو کچھ ہوا، وہ قوم کے لئے بالکل ناقابل برداشت ہے۔ اس کے پس پردہ وجوہات بھی پوشیدہ نہیں۔ چند سال قبل تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین جناب مجید نظامی نے تعلیمی اداروں میں نظریہ پاکستان کو فروغ دینے اور نسل نو کی نظریاتی تعلیمی و تربیت کی خاطر ”پاکستان آگہی پروگرام“ کے انتہائی موثر سلسلے کا آغاز کروایا جس کے انتہائی دوررس اثرات برآمد ہو رہے ہیں۔ اب تک دس لاکھ بچے یا بچیاں طلبا یا طالبات اس پروگرام میں حصہ لے چکے ہیں۔ اس کام نے پاکستان کے دشمنوں اور ان کے پروردہ عناصر کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ اسی نظریاتی لہر سے گھبرا کر ان عناصر نے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اخلاق باختہ پروگراموں کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ نئی نسل اپنے مقصد زندگی سے بیگانہ ہو کر اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں سے بے خبر رہ کر محض لہوولعب میں مشغول ہو جائے تاکہ دشمن کے لئے پاکستان کو خدانخواستہ تسخیر کرنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ جناب مجید نظامی کی قیادت میں قوم سازی کا یہ عظیم الشان کام اللہ تعالی کی تائید اور نصرت سے آگے ہی بڑھتا چلا جائے گا اور دشمن اپنے مکروہ عزائم میں ناکام ہو کر رہے گا۔ ہم آہنی ہاتھوں سے اس کا مقابلہ کریں گے کیونکہ پاکستانی قوم کے پاس محترم مجید نظامی کی شکل میں ایک مرد آہن موجود ہے جو نہ صرف اسی درس گاہ کا فارغ التحصیل ہے بلکہ تحریک قیام پاکستان میں ان کی جدوجہد سے بھی ہر کوئی واقف ہے۔ وہ علامہ محمد اقبالؒ کی فکر اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نظرئیے اور عمل کے امین ہیں۔ انہوں نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے تسلسل کے ساتھ تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ اسی لئے بھارت اور یہاں موجود بھارت نواز حلقے انہیں بھارت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔ بے شک! یہ ان کے لئے حب الوطنی کی سب سے بڑی سند ہے۔ قوم خادم اعلی پنجاب سے جو بذات خود ایک راوین ہیں، بجا طور پر مطالبہ کرتی ہے کہ وہ صوبائی وزیر تعلیم اور وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب کو برطرف کرنے کے ساتھ ساتھ اس پروگرام کے دیگر محرکین کو بھی کیفر کردار تک پہنچائیں اور پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں اس قسم کے مخرب اخلاق پروگراموں پر سختی سے پابندی عائد کر دیں۔