نیویارک میں ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں ایک ماہر نوجوان تلوار باز نے دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنی طرف آنیوالی ربر کی گولی کو تلوار سے کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
اسے کہتے ہیں فارسی میں:
”کسبِ کمال کن کہ عزیز جہاں شوئی“
”اپنے فن میں مہارت حاصل کرو تاکہ جہاں میں پسند کئے جا سکو“۔
اسکے برعکس ہمارے ملک میں دیکھ لیں کسب کمال کی بجائے حصول مال اور بندے مار نے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ یہاں اسی شخص کو اہل سمجھا جاتا ہے اور اچھا گردانتے ہیں جو مال بنانے میں مہارت رکھتا ہو‘ بھلے وہ جھوٹ فراڈ اور بے ایمانی سے ہی حاصل کیا گیا ہو۔ کاش! ہم بھی اس ماہر تلوار باز کی طرح کسی اچھے کام میں مہارت حاصل کرتے تو آج دنیا میں ہماری بھی جے جے ہوتی مگر ہمارا تو یہ حال ہے....ع
کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ
ہمیں جانا کہیں ہوتا ہے اور جاتے کہیں اور ہیں۔ اگر انسان اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کیلئے تن دہی اور لگن سے کام کرتا رہے تو کامیابی اسکے قدم چومتی ہے اور یہی بات اس ماہر تلوار نے اپنی مہارت سے ثابت کی ہے۔ باقی ”عقلمند را اشارہ کافی است“
٭....٭....٭....٭
نیوجرسی میں اب ایسا الارم بنایا گیا ہے جو اس وقت تک بند نہیں ہو گا جب تک سویا ہوا شخص بیدار ہو کر اسکے وائر لیس پینل میں درست کوڈ نمبر نہیں ڈالے گا۔
اسے کہتے ہیں نیند سے اٹھانے کا صحیح طریقہ۔ ویسے تو ہمارے شاعروں نے بھی نیند سے بیدار ہونے کے کئی نسخے بنائے ہیں کوئی کہتا ہے....ع
وے اک پھُل موتیے دا مار کے جگا سونئیے
جبکہ اس سے بھی بڑھ کر ہمارے شاعر تو گور غریباں میں سوئے شہر خاموشاں کے مکینوں کو بھی جگانے کا سوچ کر کہتے ہیں....
سو نہ پائیں گے اب گور غریباں والے
ان کی پازیب قیامت کی صدا رکھتی ہے
یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے شاعروں اور بے چارے غریب عوام کی اپنی قسمت سوئی ہی رہتی ہے ورنہ نیند کے متوالوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں اور وہ یہ شوق پورا کئے بنا ٹلتے نہیں۔ کام چوری بھی انہی نیند کے ماروں کا دل پسند مشغلہ ہے جبکہ کسی نے کیا خوب کہا ہے....
آپ کو نیند آئی جاتی ہے
ختم ابھی دل کی واردات نہیں
٭....٭....٭....٭
وفاقی وزیر امور کشمیر منظور وٹو کی طرف سے کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دینے کا بیان پڑھ کر کوئی بھی ذی ہوش موجودہ حکمرانوں کی کشمیر سے” بے مثال“ دلچسپی کو محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتا۔
زرداری صاحب نے کیاکیا نمونے یا معاف کیجئے ” عجوبے“ لا کر کشمیر کے سر پہ بٹھادئیے ہیں اول تو مولانا فضل الرحمن چیئر مین کشمیر کمیٹی کیا کم تھے مسئلہ کشمیر کو شرعی طریقہ سے ”ذبح“ کرنے کیلئے کہ اب میاں منظور وٹو نے اس کا ”جھٹکا“ کردیا۔
یہ بیان سن کر تو کشمیری بے اختیار غالب کا یہ شعر پڑھنے لگے ہوں گے....
لو وہ بھی کہتے ہیں بے ننگ و نام ہوں
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
جناب وٹو صاحب مسئلہ کشمیر تو بھارتی قبضہ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ورنہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے مطابق یہ مسلم اکثریتی ریاست پاکستان کا حصہ بننے والی تھی۔ جس پر بھارت نے قبضہ جما رکھا ہے۔ آپ وزیرِ امور کشمیر کاہے کو ہیں اگر آپ بھارت کی جانب سے تنازعہ بنائے گئے کشمیر کا اس سے قبضہ چھڑانے کی کوئی تدبیر نہیں کر سکتے۔ کیا پہلے مولانا فضل الرحمن کی مہربانیاں کم تھی کہ اب آپ بھی شامل ہوگئے۔کسی نے سچ کہا تھا....ع
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
٭....٭....٭....٭
465 انجنوں میں سے312 خراب ہیں۔وزیر ریلوے غلام بلور
جناب والا جب آپ کو محکمے کا قلم دان سونپا گیا تھا تب کتنے انجن پٹڑی پر چل رہے ہیں۔جاتے ہوئے آپ 153 انجن دے رہے ہیں اب آنے والا وزیر کیا کریگا،آپ نے تو ریلوے کو دھکا سٹارٹ بھی نہیں چھوڑا،ایسے دفن کیا ہے جیسے کابل کے کھنڈرات میں آپکے بانی دفن ہیں۔
وزیر خزانہ ہر مہینے ریلوے کو 2ارب 58کروڑ کی سبسڈی دے رہے ہیں لیکن ریلوے لائنوں پر پھر بھی نقل و حرکت بند ہے۔ کاش آپ خود ہی تھوڑی شرم محسوس کرکے اس وزارت کی جان چھوڑ دیں تو آپ کی اس ”ذرہ نوازی“ سے قوم کا بھلا ہوگا۔ پانچ سال تو آپ نے خوب عیاشی کرلی ہے۔ گاڑیوں کا بزنس بھی خوب چل گیا ہوگا۔آخری عمر میں تو ہر آدمی اللہ اللہ شروع کردیتا ہے۔آپ کی وزارت کے بھی آخری دن ہیںبس الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔
برائے مہربانی اب تو ریلوے کو ڈالا ہوا” جَپھا“ چھوڑ دیں تاکہ وہ چلنا شروع ہوجائے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بزنس ٹرین بھی کروڑوںکی مقروض ہوکر پٹڑی پر ساکت کھڑی ہوچکی ہے،ہمیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ٹرین پر کسی نے جادو کردیا ہو۔ماہر عملیات یا بنگالی بابے کو چیک لازمی کروانی چاہئے تاکہ یہ وسوسہ بھی ختم ہوجائے۔
٭....٭....٭
بدھ ،10 ربیع الاوّل ‘ 1434ھ ‘23 جنوری2013
Jan 23, 2013