لاہور (حافظ طارق محمود/وقت نیوز) ایف آئی اے میں قواعد کے خلاف ڈیپوٹیشن پر ہونے والی تعیناتیوں نے بالآخر ڈی جی ایف آئی اے کو بھی صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجبور کر دیا۔ ڈی جی ایف آئی اے چودھری انور ورک نے سیکرٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر کے نام لکھے گئے خط نمبر A/34(Deputationst/Adm-I/2013 میں تحریر کیا کیا ہے کہ ایف آئی اے میں گریڈ 17 سے 20 کے 64 افسران کو مختلف محکموں سے ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا گیا ہے جن کی منظوری وفاقی وزارت داخلہ نے دی ہے۔ ایف آئی اے کے 1975 کے ایکٹ 12 کے تحت صرف 6 گروپوں اکاﺅنٹس، کسٹم، انکم ٹیکس، انجینئرنگ اور لیگل میں متعلقہ شعبوں کا تجربہ رکھنے والے افراد کو ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا جا سکتا ہے لیکن تمام قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان افسران کو ایف آئی اے میں تعینات کیا گیا۔ ان میں بعض کنٹریکٹ ملازمین بھی شامل ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ڈیپوٹیشن پر تعینات ناتجربہ کار افسران کی وجہ سے انتظامی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اپنے خط میں ڈی جی ایف آئی اے نے سیکرٹری داخلہ کو لکھا ہے کہ نہ صرف ناتجربہ کار اور نااہل افسران کی تعیناتی کی حوصلہ شکنی کی جائے بلکہ قواعد پر پورا نہ اترنے والے افسران کو واپس ان کے محکموں میں بھیجا جائے۔ ذرائع کے مطابق 400 سے زائد افراد کو ایف آئی اے میں ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا گیا اور اکثر کی خدمات ایف آئی اے میں ضم کر دی گئیں ان میں کانسٹیبل سے لے کر ایڈیشنل ڈائریکٹر تک کے افراد شامل ہیں۔ یہ افراد پی آئی اے، ای او بی آئی، نادرا، متروکہ وقف املاک بورڈ، کے پی کے یونیورسٹی، سندھ اسمبلی سیکرٹریٹ، محکمہ اطلاعات، کسٹم، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس ڈیپارٹمنٹ، نیشنل بنک آف پاکستان اور دیگر محکموں سے ایف آئی اے میں تعینات ہوئے۔ ایم ڈی پی ٹی وی یوسف بیگ مرزا کے صاحبزادے حارث مرزا کو 27 اگست 2012ءکوٹیکنا سے ایف آئی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر، وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد خان کے صاحبزادے آغا فہد کو ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر، رکن قومی اسمبلی نبیل گبول کی صاحبزادی مہرین نبیل گبول کو ایف آئی اے کمرشل بنک سرکل میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔ دونوں افراد بالترتیب پی آئی اے اور نادرا میں کنٹریکٹ ملازم تھے۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی رمیش لعل کے صاحبزادے وکاش موٹن کو بھی ایف آئی اے امیگریشن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر لگایا گیا یہ بھی نادرا کے کنٹریکٹ ملازم تھے۔ فنکشنل لیگ کے ایم این اے فقیر جادم منگریو کے بیٹے اصغر علی جو کہ ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کے عارضی ملازم تھے کو ایف آئی اے کرائم سرکل، ای او بی آئی میں کنٹریکٹ پر تعینات خورشید شاہ کے صاحبزادے یازم علی شاہ کو امیگریشن، خورشید شاہ کے بھانجے گدا حیدر شاہ کو ایف آئی اے میں انسداد دہشت گردی سیل، سینیٹر نصیرمینگل کے بیٹے محمودالرحمان مینگل کو انسداد ہیومن ٹریفک سیل میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ ارسلان افتخار کیس میں بنائی جانے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم میں ایف آئی اے کی نمائندگی کرنے والے نصراللہ خاں گوندل پنجاب پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر تعینات تھے اس وقت گریڈ 18 میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ یکم مارچ 2011ءکو نادرا میں گریڈ 14 میں تعینات ہونے والے شہریار خان ایف آئی اے میں گریڈ 16 میں تعینات کرکے ان کی سروس کو ضم کر دیا گیا، صرف یہی نہیں گڈ گورننس کی مثالیں دینے والی حکومت کی ایسی بہت سی کہانیاں ایف آئی اے میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے ذریعے اپنا راز فاش کر رہی ہیں۔ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے یا پھر ایک بار پھر سپریم کورٹ نے، بہت جلد صورتحال واضح ہو جائے گی۔ تاہم ڈی جی ایف آئی اے کے سیکرٹری داخلہ کو لکھے گئے حالیہ خط نے حکومتی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان افسران کی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کا معاملہ وزارت داخلہ کے افسران کی پہنچ سے کہیں بلند ہے۔
ڈیپوٹیشن پر آنے والے 64 افسران نااہل ہیں‘ ڈی جی ایف آئی اے کا سیکرٹری داخلہ کو مراسلہ
Jan 23, 2013