اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی عملدرآمد کیس میں ایم کیو ایم کے ایم پی اے منظر امام کے قاتلوں کی گرفتاری کا پولیس کو حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کیس ایک چیلنج ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پولیس عدالتوں میں ثبوت پیش نہیں کرے گی تو عدالتیں ملزمان کو رہا کرنے کا ہی کہیں گی۔ جب عدالت کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اس پر عمل نہیں ہوتا۔ عدالت میں چیف سیکرٹری سندھ کی کراچی امن و امان فیصلے پر عملدرآمد رپورٹ پیش کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہو رہے ہیں، ایم کیو ایم کے ایم پی اے کو محافظوں سمیت مار دیا گیا، شاہ زیب قتل میں بھی سول سوسائٹی سامنے آئی اور عدالتی حکم پر ملزم گرفتار ہوا۔ عام آدمی کی تو کوئی زندگی ہی نہیں ہے، عدالت کے لئے ہر آدمی شاہ زیب ہے، ہر افسر صرف مراعات انجوائے کر رہا ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہر کسی کی جان و مال کا تحفظ کریں۔ چیف جسٹس نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ کراچی میں آج کتنی نعشیں ملی ہیں، اس پر پولیس حکام نے بتایا کہ رات تک پانچ کی اطلاع تھی، صبح مزید تین کا پتہ چلا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہوں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ اجمل پہاڑی کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے، اس پر سندھ پولیس کے حکام نے م¶قف اپنایا کہ عدالتوں کا دبا¶ تھا جس پر اسے رہا کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ عدالتوں میں ثبوت پیش نہیں کریں گے تو عدالت رہا کرنے کا ہی کہیں گی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ منظر امام قتل کی تفتیس جاری ہے، ایک ہفتے کی مہلت دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے فیصلے کے بعد دو ماہ تک کراچی میں امن رہا، فیصلے کی خلاف ورزی شروع ہوئی تو حالا ت بگڑ گئے، سپریم کورٹ نے متحدہ قومی موومنٹ کے ایم پی اے کے قاتلوں کی آج تک گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے سماعت 6 فروری تک ملتوی کر دی۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ کی تمام پولیس سیاست زدہ ہے، ہمارے لئے ہر شہری شاہ زیب ہے۔ منظر امام قتل کیس ایک ٹیسٹ کیس بن گیا ہے، منظر امام کے قاتلوں کو پکڑ کر لائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ کی تمام پولیس سیاست زدہ ہے اسی لئے کراچی بدامنی فیصلے کیس کے ایک فیصلے میں پولیس کو سیاست سے پاک رکھنے کے لئے کہا گیا ہے۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی منظر امام کے قاتلوں کے گرفتاری کےلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کمیٹیوں پر یقین نہیں رکھتے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کام نہ کرنا ہو تو کمیٹیاں بنا دی جاتی ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں پانچ ہزار طالبان کے داخلے کی فہرست دی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ طالبان کوئی ایسی چیز نہیں کہ کنٹرول نہ کئے جا سکیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کراچی میں دو کروڑ کی آبادی ہے، طالبان کا عنصر موجود ہے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ طالبان ایسی چیز نہیں کہ کنٹرول نہ کیا جا سکے، حکومت سے کہیں کہ پولیس کو سیاست سے پاک کرے۔