رینٹل پاور کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تفتیشی افسر کامران فیصل کی ہلاکت کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے کیس عدالت نمبر دو میں فکس کردیا، جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل دو رکنی بینچ کل سے نوٹس کی سماعت کرے گا۔ عدالت نے قرار دیا کہ کامران فیصل کے اہلخانہ، ساتھیوں اور عوام الناس نے انکوائری پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ان کے مطابق رینٹل پاور کیس میں انتہائی بااثرسیاسی اور انتظامی افراد ملوث ہیں۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ جاں فشانی، لگن اور دیانتداری سے تفتیش کرنے والوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کامران فیصل کی موت نے ہلاکر رکھ دیا ہے معاملے سے پہلو تہی نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس نے نیب کے پراسکیوٹر جنرل سے استفسار کیا کہ کامران فیصل کی موت کے حوالے سے کیا ایکشن لیا گیا۔ جس پر کے کے آغانے جواب دیا کہ پولیس معاملے کی انکوائری کررہی ہے، نیب بدعنوانی کی تحقیقات کرتا ہے اور دیگر تفتیشی اداروں کے کام میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ اس پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر درج ہوئی کہ نہیں۔ کے کے آغا نے جواب دیا کہ معلوم نہیں۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ آپکے افسر کی موت ہوئی اور آپ کو یہ علم نہیں کہ مقدمہ درج ہوا کہ نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کامران فیصل کے اہلخانہ تحقیقات سے مطمئن نہیں۔ ایک طرف بااثر ملزمان تھے دوسری طرف دیانتدار تفتیشی افسر، تفتیش غیر جانبدارانہ فورم پر ہونی چاہیے،ذمے داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے،نہیں جانتے کہ کامران فیصل کو ماردیا گیا یا اس نے خود کشی کی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کامران فیصل کے جنازے کے ساتھ شاید نیب کی کریڈبلیٹی کا بھی جنازہ اٹھ گیا۔