ن لیگ اور جمیعت علمائے اسلام نےملک میں امن وامان کی ناقص صورتحال پر قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کردیا۔

قومی اسملبی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی کی زیرصدارت ہوا، اجلاس کےدوران ن لیگ کی
تہمینہ دولتانہ نے کہا کہ وفاقی حکومت ملک میں امن وامان قائم رکھنے اور عوام کو ریلیف دینےمیں ناکام ہوچکی ہے۔ صوبہ بہاولپور کی بات کی جارہی ہے لیکن حکومت کو جنوبی پنجاب کا وزیراعظم برداشت نہیں ہوا۔ جسکے بعد ن لیگ نے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔ جمعیت علمائے اسلام نے بلوچستان میں گورنر راج کے خلاف تیسرے روز بھی ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ نئے صوبوں کے حوالے سے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے ریاض پیرزادہ نے کہا کہ آئین میں نئے صوبوں کی گنجائش نہیں ہے اگر ایسا کیا گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا، جس پر قمرزمان کائرہ نے ایوان کو آگاہ کیا کہ نئے یونٹس کے قیام کی منظوری کے بعد ہی صوبوں کا قیام عمل میں آئے گا۔ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کی پی اے سی میں عدم حاضری کے حوالے سے خصوصی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی، جس میں کہا گیا کہ رجسٹرار کا پی اے سی میں پیش ہونا آئینی تقاضا ہے، معاملے کا ایسا حل نکلنا چاہیے جس سے اداروں کے مابین تصادم نہ ہو۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے نقطہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسلحہ لائسنس پر عائد پابندی سمارٹ کارڑ کے
اجراء کے بعد اٹھالی گئی ہے۔ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ انہوں نے طاہر القادری سے ذاتی حثیت میں کوئی معاہدہ نہیں کیا ۔ایوان کو بتایا گیا کہ گزشتہ چار سالوں میں ملک میں پولیو کے چارسو سولہ کیسز منظرعام پر آئے۔ جن میں سے پچاسی کیس دوہزار بارہ میں رجسٹرڈ ہوئے۔ ایوان نےنجی تعلیمی ادارے رجسٹریشن
بل دوہزار بارہ کی منظوری بھی دی۔ جس کے بعد اجلاس کل دن گیارہ بجے کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن