تبدیلی کا پہلا خوشگوار جھونکا

متروکہ املاک کے چیئرمین محترم صدیق الفاروق نے سرکاری رہائش کے طور پر زمان پارک میں واقع آٹھ کنال کی کوٹھی لینے سے انکار کردیا ہے، اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی علاقے میں مجھے دس مرلہ کا مکان دیا جائے، جہاں میں سادگی سے رہائش رکھ سکوں اور اپنا نظام چلا سکوں، یہ خبر پڑھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہوئی ہے، یہ معاشرے میں تبدیلی کی طرف ہوا کا پہلا خوشگوار جھونکا محسوس ہوا ہے۔ اس سے پہلے گورنر پنجاب نے بھی گورنر ہائوس سے رہائش گاہ ختم کر کے ڈیفنس میں ایک کنال کا گھر کرایہ پر حاصل کر لیا ہے۔ گورنر ہائوس کو صرف سرکاری آفس کے طور پر استعمال کیا جائیگا۔ہمارے وطن عزیز میں سرکاری رہائش گاہیں مختصر کرنے کا رجحان بہت حوصلہ افزا قدم ہے جو وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی جانب اہم پیش رفت ہے۔ گورنر صاحب تو ایک طویل عرصہ تک برطانیہ کے شہری رہے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہاں پر سرکاری حکام اور اراکین پارلیمنٹ کسی قسم کے مکانات یا فلیٹس میں رہتے ہیں اور دفاتر کس طرح کے ہوتے ہیں۔ یہ انگریزوں کی چالاکی ہوشیاری یا ہماری بدقسمتی ہے کہ انگریز جب یہاں سے رخصت ہوا تو ایک مراعات یافتہ سرکاری طبقہ یہاں چھوڑ گیا تھا جو 68سال کے بعد بھی قوم پر سوار ہے اور انگریزوں سے زیادہ انگریز ہے۔ انہیں حکمرانی کی تربیت دینے کیلئے ایچی سن کالج جیسے تعلیمی ادارے، جہاں صرف بیورکریٹس، بڑے بڑے جاگیردارں اور سیاسی خاندانوں کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ یہیں سے انہیں اسمبلیوں میں انتخابات کے ذریعے اور بیور کرپٹ بننے کے گر سکھائے جاتے ہیں۔ 75ایکڑ رقبہ پر تعمیر شدہ یہ سکول جہاں ابتدائی کلاسوں سے ہی پاکستان کے امتیازی نشان جناح ٹوپی کی جگہ اونچے شملہ والی پگڑی اور گلے میں طرق غلامی نیکٹائی باندھنا بھی لازمی امر ہے۔ اسی نرسری سے وی آئی پی کلچر جنم لیتا ہے۔ جو زندگی بھر ان کیساتھ رہتا ہے۔پورے مال روڈ (شاہراہ قائداعظم) پر تین بلڈنگز ہیں۔ سب سے پہلے گورنر ہاوس، درمیان میں ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج اور اس سے آگے ایچی سن کالج کے بعد مال روڈ ختم ہو جاتا ہے۔ سٹاف کالج میں ہر چار ماہ بعد ساٹھ اعلیٰ افسران جو گریڈ 19 اور 20 کے ہوتے ہیں اور انہیں آگے گریڈوں میں لے جانا ہوتا ہے ان کی ذہنی اور جسمانی فٹنس کیلئے کورس ہوتا ہے۔ ان تینوں بلڈنگز کے سامنے جی او آر ون ہے جہاں پنجاب کے تمام اعلیٰ حکام صوبائی وزراء ’صاحبان‘ عوام کی خدمت کیلئے انہیں بیس بیس کنال کی کوٹھیاں الاٹ کی جاتی ہیں، صوبائی سیکرٹریز، ڈپٹی سیکرٹریز، لاہور ہائی کورٹ کے جج صاحبان، ڈی سی او ہاؤس، سی سی پی او ہاؤس، غرضیکہ پنجاب کی ساری کریم یہاں رہائش پذیر ہے اور کوئی کوٹھی بھی دس کنال سے چھوٹی نہیں ہے۔ چند روز پہلے اخبارات میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ سی سی پی او ہاؤس پر چار سال پرانے پولیس افسر کا قبضہ ہے جو بڑی کوشش کے بعد ان سے خالی نہیں کرایا جا سکا حالانکہ وزیراعلیٰ بھی خالی کرانے کی کوشش میں ناکام ہیں۔جی او آر میں واپڈا سب ڈویثرن کے ایک ذمہ دار افسر نے یہ بتا کر حیران بلکہ پریشان کر دیا کہ جی او آر میں تمام رہائش گاہوں کو الگ الگ فیڈر سے دو دو بجلی کے میٹر لگوانے کی قانونی طور پر اجازت ہے۔ ایک فیڈر سے بجلی بند ہو جائے تو سوئچ اوور سے دوسرا فیڈر آن کر لیا جاتا ہے تا کہ یہاں کے رہائشیوں کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا نہ کرنا پڑے اور انہیں بلا تعطل چوبیس گھنٹے بجلی ملتی رہے کیونکہ یہ طبقہ عوامی خدمات انجام دے رہا ہے اس لئے نہیں ذہنی سکون کی ضرورت ہے۔ مشکل کاٹنے کیلئے عوام زندہ سلامت رہیں۔ان حالات میں گورنر پنجاب صاحب اور صدیق الفاروق صاحب نے بڑی رہائش گاہیں چھوڑ کر چھوٹی رہائشوں کا مطالبہ کر کے کسی بڑی تبدیلی کیلئے پہلی اینٹ رکھ دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تبدیلی روکنے کی کوشش کر کے انہیں جبراً بڑی رہائش گاہوں میں جانے پر مجبور نہ کیا جائے یا نوکری سے ہی فارغ کر دیا جائے بحرحال یہ آپشن بھی انہیں اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے اور ہر قسم کی صورتحال سے نپٹنے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ اگر وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہو گیا تو انکے پاس کیا رہ جائیگا۔ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر سکتی ہے، اور نسل در نسل آنیوالے حکمران ایک مچھلی کو کیونکر قبول کرینگے۔

ای پیپر دی نیشن