زندگی کی کچھ یادیں اس قدر دلخراش ہوتی ہیں کہ انہیں یاد کرکے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔مگر جب ذکر محمدﷺ ہو تو دلخراش لمحات اشک بن کر خود بخود پلکوں سے چھلک پڑتے ہیں۔ نیویارک کے مقامی مسلم فیونرل ہوم کی مسجد میں نماز عصر کی ادائیگی کے بعد حالت سکتہ میں سر جھکائے دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا کہ شاید کہیں مومنہ نظر آجائے مگر جب پلٹ کردیکھا تو منبر کے قریب ایک سیاہ غلاف میں لپٹا ایک باکس رکھا تھا۔ سیاہ چادر پر سنہری تاروں سے کلمہ شہادت لکھا ہوا تھا۔ پتھرائی نظروں سے اس باکس کوگھور تے جا رہی تھی کہ دل سے ایک سسکی سنائی دی کہ یہ تیری لخت جگر کی ڈولی ہے جو اگلے گھر جانے کو بے چین ہے۔ دیوانوں کی طرح دوڑتی ہوئی ٹرالی پر رکھے اس سیاہ اور سنہری چادر میں لپٹے باکس سے لپٹ گئی اور پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے سرگوشی میں بس اتنا کہا ”آقاﷺ سے میرا سلام کہنا“۔ دل کو ایک آس ہے کہ علم کی شہید نے آقا محمد رسول اللہﷺ کے دربار عالی میںمیرا عاجزانہ سلام پہنچا دیا ہو گا ۔ آقاﷺ سے عقیدت و محبت کا پیمانہ کوئی ہوتا تو گستاخوں کو مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ ہو سکتا۔ حقیر و ادنیٰ مسلمان بھی حب نبوی کا اسیر ہے۔عاشق رسولﷺ اولاد کی موت برداشت کر سکتا ہے مگر نبیﷺ کے نام پر جان دینے سے دریغ نہیں کرتا بلکہ مومن کی یہ دعا ہوتی ہے کہ اس کی جان مال، ماں باپ اولاد سب اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ پر قربان ہوں۔ آقاﷺ کی شفاعت ہر مسلمان کی پہلی اور آخری آرزو ہے اور اس آرزو ئے حیات و موت پر ہر مسلمان کا دم نکلتا ہے۔ والد گرامی کے انتقال کے بعد والدہ کہتی تھیں کہ ان کے شوہر عاشق رسول تھے، مقام حقیقی پر پہنچ گئے ہیں،کاش وہ بھی اس مقام کو پہنچ پائیں۔ ہماری مائیں بھی بڑی سادہ ہوتی ہیں، زندگی کے ہر قدم پر خود کو اپنے شوہر سے ایک قدم پیچھے رکھتی ہیں۔ ماں جی کو یقین دلایا کہ ان کا مقام ان کے شوہر کے پہلو میں ہے مگر عشق نبیﷺ میں والدہ کے آنسوﺅں کو قرار نہیں آتاتھا۔ والد گرامی کے انتقال کے تین روز بعد ہم نے خواب دیکھا کہ نبی کریمﷺ کے دربار عالی سے ایک خط موصول ہوا ہے جس پر سیاہ روشنائی سے بڑے لفظوں میں کلمہ طیبہ لکھا ہے اور نیچے لکھا ہے کہ یہ مہر نبی کریمﷺ کی جانب سے ہماری والدہ کے لیئے ہے۔ ہم نے خواب میں وہ خط اپنی والدہ محترمہ کو دیا ،انہوں نے خطر کو چوما اور سینے سے لگا لیا۔ ہم نے بیدار ہو کر یہ خواب والدہ محترمہ کو سنایا تو انہوں نے ہماری پیشانی کو چومتے ہوئے کہا ”شکریہ“۔ آج بھی ہم اپنی والدہ کے”شکریہ“ کو یاد کرکے رو دیتے ہیں کہ اولاد اپنے والدین کی زندگی میں ان کی کم ہی شکر گزار ہوتی ہے مگر والدین اپنی اولاد کی دی ہوئی خوشی پر اس قدر شکر گزار ہوتی ہے کہ ان کی حالت تشکر یاد کر کے اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں پر شرمندگی ہونے لگتی ہے۔ آقاﷺ کی شفاعت کا دروازہ ماں باپ کی رضا سے کھلتا ہے۔ ماں باپ راضی تو دنیا و آخرت راضی۔
ماں مَنّی تاں ربّ منایا، پہلا مرشد مائی
شکر خدا دا جے توں راضی، نالے پت رہ آئی
گستاخوں کو اس حقیقت کا دراک ہی نہیں کہ محمد کی امت ہر ظلم و زیادتی برداشت کر سکتی ہے مگر اپنے نبی کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتی۔ ذہنی مریض اسلام سے خوفزدہ ہیں۔ اس کی ایک حالیہ مثال امریکہ کی ایک معروف درسگاہ ”ڈیوک یونیورسٹی“ کے کلیسا میں اذان کا ایشو ہے جو ایک انتہاءپسند مسیحی تنظیم کی نذر ہو گیا۔امریکی میڈیا کی اس خبر Muslim Students at Duke to Begin Weekly Call-to-Prayerپر جہاں امریکہ بھر کے مسلمانوں کو خوشی ہوئی وہیں حاسدین کے لئے یہ خبر تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ نارتھ کیرولینا کی ڈیوک یونیورسٹی کے قدیم چرچ میں مسلم سٹوڈنٹس کی جدوجہد کے بعد نماز جمعہ کی اجازت تو مل چکی تھی جبکہ گزشتہ جمعہ کو لاﺅڈ سپیکر پر اذان جمعہ کی اجازت بھی مل گئی۔ پہلی اذان امریکی میڈیا پر انگلش ترجمہ کے ساتھ پیش کئی گئی مگر مخالفین اسلام کی خوفناک دھمکیوں کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کو لاﺅڈ سپیکر پر اذان جمعہ کی اجازت واپس لینا پڑی۔ گستاخ رسولﷺ مختلف صورتوں اور اشکال میں دنیا بھر میں موجود ہیں مگر ان کی ناپاک سرگرمیوں کا منہ توڑ جواب مسلمانوں میں اتحاد ویکجہتی کی صورت میں دیا جا سکتا ہے۔ہمیں اس خبر سے زیادہ تکلیف پہنچی کیوں کہ مومنہ بیٹی اس یونیورسٹی کی طالبہ تھیں۔ اس خبر سے مومنہ کی روح اداس ہو گی کیوں کہ مومنہ ڈیوک یونیورسٹی کی مسلم سٹوڈنٹس میں ایک متحرک سٹوڈنٹ تھیں اور یونیورسٹی میگزین میں ان کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔
اذان کی اجازت نہ مل سکی۔۔۔!
Jan 23, 2015