داڑھی دی بکل

ایک دن یونیورسٹی کی گراونڈ میں بیٹھی پڑھ رہی تھی کہ میری نظر ایک کلاس فیلو پر پڑی۔ اسے تیزی سے اپنی طرف آتے دیکھ کر پہلے تو گھبرا گئی کہ وہ ہم جیسوں کے سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہ کرتی تھی۔ وہ میرے قریب آ کر بیٹھ گئی اور رازداری سے کہنے لگی ’’یار تم سے ایک اہم سوال پوچھنا ہے یہ کہہ کر اس نے فقہ کا ایک پیچیدہ مسئلہ میرے سامنے رکھ دیا۔ میں نے ہنستے ہوئے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا تو وہ اُداس سا منہ بنا کر کہنے لگی مجھے تو یہ یقین تھا کہ تمہارے پاس اس کا جواب ضرور ہو گا۔ میں نے اس یقین کی وجہ پوچھی تو کہنے لگی ’’اس لیے کہ تم سکارف اوڑھتی ہو۔‘‘ پہلے تو میں نے حیرانی سے اس کا منہ دیکھا پھر مسکراتے ہوئے شرمندگی سے کہا بہن تم نے غلط انسان سے صحیح سوال کیا ہے۔ سکارف لینا تھا تو مجھے پہلے دین کی سمجھ بوجھ بھی حاصل کرنا چاہیے تھی تاکہ تمہاری خوش گمانی کا بھرم قائم رہتا۔ وہ مغری لباس پہنتی تھی اور اسکی نظر میں میرے اس لباس کے انتخاب کا مطلب یہی تھا کہ میں ذہنی اور علمی طور پر بھی مذہبی ہوں، لیکن میرا عقیدہ لباس تک محدود تھا۔ بڑے بھائی کو داڑھی رکھنے کا شوق ہُوا تو ابا جان نے منع کیا۔ اس نے اصرار کیا تو ابا جان نے کہا کہ داڑھی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، جب تم ان کو پورا کرنے لگو گے تو رکھ لینا۔ پہلے اپنی ذات کے اندر اعلیٰ اخلاق اور اوصاف پیدا کرو پھر تم داڑھی رکھتے اچھے لگو گے ورنہ یہ فیشن یا دکھاوا مذہب کو بدنام کرنے کا سبب بنے گا۔ ہم اتنے سادہ لوح ہیں کہ لباس اور ظاہری وضع قطع پر ہی نثار ہو جاتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ سکارف فیشن ہے یا قلبی انقلاب کا شاخسانہ ہے۔ داڑھی والے شخص کی داڑھی محض دکھاوا ہے یا دین اسکے اندر واقعی گھر کر چکا ہے۔ ہم کسی خوبصورت باریش شخص سے مر عوب ہو جاتے ہیں۔ اسے ولی اللہ کے درجے پر فائز کر دیتے ہیں۔ اسی طرح جیسے میری ہم جماعت نے میرا سکارف دیکھ کر مجھے عالمہ سمجھ لیا۔ یہ تو اسکی خوش قسمتی تھی کہ میں نے سچ تسلیم کر لیا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ میں ہوشیاری دکھاتی تو آج میرے عقیدت مندوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہوتا اور میں کسی آستانے کی مالک ہوتی۔ ویسے پڑھ لکھ کر بے روزگاری سے یہ کاروبار اچھا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سادہ لوح وافر پائے جاتے ہیں دوسرے کی شخصیت کے ظاہر سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔ سکول سے نکل کر جب کالج کی زندگی میں قدم رکھا تو دیکھا وہاں بھی کئی پیرنیاں اِدھر اُدھر گھوم رہی ہوتیں اور انکی چیلیاں ان کا سامان اٹھائے پیچھے پیچھے پھر رہی ہوتیں۔ جعلی مولویوں اور پیروں کے علاوہ بھی ایسے پیر ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں، بس جس پر اعتقاد ہو جاتا ہے اس کا فیض جاری ہو جاتا ہے۔ ایک دور تھا جب دین کے علم کو حاصل کرنے کیلئے سالہا سال کی محنت درکار ہوتی تھی پھر جا کر کوئی مولوی کے منصب پر فائز ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ بھی کرشمہ یا فیض سمجھ لیجئے کہ آج مسلمانوں کو اجتماعات میں چار دن کسی مولانا کی تقاریر سُن کر قرآن، حدیث اور فقہ کے مسائل اور تفاسیر ازبر ہو جاتی ہیں اور اشاعت دین کا کام زور و شور سے شروع ہو جاتا ہے، ایسے نام نہاد پیر بھی ہیں جن کی درگاہ پر چند دن کی خدمت سے خلافت نصیب ہو جاتی ہے۔ داڑھی رکھ لی جائے تو سادہ لوح لوگوں کی طرف سے مولوی اور حاجی صاحب کی سند مفت میں حاصل ہو جاتی ہے اور ہم اتنے ضعیف الاعتقاد ہین کہ فوراً ایسے لوگوں کے ہاتھوں اُلو بن جاتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم داڑھی رکھ لیتے ہیں، برقع اوڑھ لیتے ہیں لیکن اسکے تقاضوں سے ناآشنا ہیں۔ جعلی مولوی اور پیروں نے دین کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ داڑھی تو رکھ لی جاتی ہے لیکن یہ داڑھی جنت میں اسی وقت لے جا سکے گی جب آپ کا اخلاق اور کردار عملی نمونہ ہو گا ۔ داڑھی رکھنا سنت ہے لیکن لوگ اسکی اوٹ میں ہزاروں سنتیں پس پس پشت ڈال دیتے ہییں۔ حُسنِ خلق سے پیش آنا ، سچ بولنا ، دھوکہ نہ دینا ، دوسروں کے کام آنا، امانتوں میں خیانت نہ کرنا ، غیبت اور چوری نہ کرنا ، ہمسائے کے حقوق کا خیال رکھنا ، تہمت لگانے اور گالی گلوچ سے پرہیز کرنا ، دوسروں کے حقوق ادا کرنا ، وعدہ نبھانا، رویوں میں نرمی اختیار کرنا یہ بھی تو حضور نبی اکرمؐ کی سُنتیں ہیں۔ ایک سُنت رکھ کر باقی ساری سُنتیں کیوں فراموش کر دی جاتی ہیں؟ بعض لوگ داڑھی نہیں رکھتے لیکن ان کا باطن داڑھی سے مزین ہوتا ہے۔ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری بے داڑھی شخص سے ملنا تو درکنار اس کو اپنی جماعت میں شامل بھی نہ ہونے دیتے تھے۔ حضرت علامہ محمد اقبال ان سے ملاقات کیلئے تشریف لائے تو انہوں نے دروازے پر آکر ان کا استقبال کیا۔ علامہ اقبال کو عزت و احترام سے نوازا یہاں تک کہ انہیں لاہور واپس جانیوالی سواری پر سوار کر کے لوٹے۔ عقیدت مندوں نے حیرت سے سوال کیا کہ آپ تو بے داڑھی کو پاس بھی نہیں بھٹکنے دیتے۔ علامہ اقبال کی اس قدر عزت افزائی کیوں۔ تو حضرت میاں شیر محمد شرقپوری نے فرمایا اس لیے کہ انکی داڑھی انکے دل کے اندر ہے۔ یعنی وہ باطنی طور پر حضور نبی اکرمؐ سے محبت اور انکی تعلیمات پر کار بند ہیں۔ علامہ اقبال سے کسی نے کہا کہ داڑھی والے چوریاں کر رہے ہیں، علامہ نے فرمایا نہیں بلکہ چوروں نے داڑھیاں رکھ لی ہیں۔ اب حقیقت یہی ہے تمام چوروں ، انتہا پسندوں ، تنگ نظروں اور دہشتگردوں نے داڑھیاں رکھ لی ہیں اور داڑھی کی بُکل میں کرپشن، لوٹ مار ، دہشتگردی اور فتنہ پروری کو چھپائے پھرتے ہیں۔ شکل مومنہ کرتوت کافراں کا مصداق بن رہے ہیں۔ اب صورتحال یہی ہے داڑھی تنگ نظری کی علامت بن گئی ہے۔ جو لوگ داڑھی نہیں رکھتے وہ اندر سے اسی مولویانہ فکر کی تنگ نظری اور گھٹن کا شکار ہیں۔ یہ ہمارے اپنوں کی سادہ لوحی ، ضعیف الاعتقادی ، بیوقوفیوں اور لالچ کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ ہم نے اس اسلامی شعائر کے تقاضوں پر کبھی نہیں سوچا۔وہ داڑھی ہو ، جبہ ہو، حجاب ہو یا سکارف ہو۔ جب ہم ان تقاضوں کو سمجھ کر وہ اعلی اوصاف جو ہمیں دین سکھاتا ہے اپنے اندر پیدا کر لیں گے تو ہم دوسروں قوموں میں اسی داڑھی اسی جبے اور سکارف کے ساتھ سر اٹھا کر چل سکیں گے ورنہ داڑھی ایک مذاق بنا رہے گا اور ہماری بہنوں کے سکارف چھینے جاتے رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن