مریم نواز کا ’’تھنک ٹینک‘‘ اورعمران خان

Jan 23, 2017

نوازرضا۔۔۔ںوٹ بک

پاکستان کی سیاست میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے سیاسی مخالفین کے نام بگاڑنے کی روایت کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے نام بگاڑے ایئرمارشل (ر) محمد اصغر خان کو ’’آلو‘‘اورخان عبد القیوم خان کو ’’ڈبل بیرل‘‘ کے نام سے پکارا ۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان ’’شہاب ‘‘ میں سید مودودی سمیت مختلف سیاسی رہنمائوں کی تصاویر کے ساتھ اداکارائوں کے دھڑ لگا کر ان کا مذاق اڑایا گیا ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی اپنے عروج پر تھی میاں طفیل محمد مرحوم اور ملک قاسم مرحوم کے ساتھ لاہور کے قلعہ میں جو سلوک کیا گیا وہ ضبط تحریر میں نہیں لایا جاسکتا پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں میں ’’محاذ آرائی ‘ ‘ ہی کا نتیجہ تھا جب جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو ’’تختہ دار ‘‘ پر لٹکایا تو سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین نے اپنے ہی قبیلے کے بڑے لیڈر کے تختہ دار پر لٹکائے جانے احتجاج کیا اور نہ ہی آواز بلند کی ۔جنرل ضیاالحق کے دور میں پیپلز پارٹی کا ’’ولن‘‘ کا کردار ہو گیا لیکن سیاست میںتلخی کے باوجود سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے نام نہیں بگاڑے میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے ادوار میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان شدید محاذ آرائی رہی لیکن ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا رہا۔ ایک آد ھ سیاست دان ضرور تھا جس کا پیشہ ہی سیاسی مخالفین کا مذاق اڑانا تھا وہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں ذومعنی ریمارکس دے کر اپنا ’’دال دلیا‘‘ کماتا تھا مجموعی طور پر ان کے ادوار میں بھی ایک دوسرے کے نام بگاڑنے سے گریز کیا گیا یہی وجہ ہے لندن میں 2006ء میں نوز شریف اور بے نظیر بھٹو ’’ اپنے ماضی کو بھلا کر ’’ میثاق جمہوریت‘‘پر دستخط کرنے کے لئے ایک میز پر بیٹھ گئے آج 10سال بعد کم وبیش وہی سیاسی جماعتیں جو باہم بر سرپیکا ر ہیں جو اس وقت ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہی تھیں ان میں ’’تحریک انصاف ‘‘کا اضافہ ہوا ہے جو مسلم لیگ(ن) کے بعد دوسری مقبول جماعت ہے۔ اسے مسلم لیگ (ن) کے بعد سب سے زیادہ ووٹ ملے لیکن پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کم نشستیں ملنے کا غم کھائے جا رہا۔ ہے کم نشتیں ملنے سے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے خواب چکنا چور تو ہی ہو گئے وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی نشست بھی حاصل نہ کر سکے لہذا وہ اس اسمبلی میں ہی بیٹھنے کے لئے تیار نہیں جس میں ان کے شایان شان ’’منصب‘‘ نہ مل سکا ۔ انہوں نے انتخابی نتائج تسلیم کئے اور نہ پارلیمنٹ ہی جائز حیثیت کو ماننے کے لئے تیار ہیں وہ پچھلے پونے چار سال سے پارلیمنٹ کو ’’گرانے ‘‘ پر اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔ انہوں نے جس طرح بری طرح وزیر اعظم محمدنواز شریف کی ذات کو ’’تختہ مشق‘‘ بنایا ہے اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ا نہوں نے نواز شریف کو مختلف ’’القابات‘‘ سے پکارا اور جس طرح کی سیاست کو متعارف کرایااس سے ان کی مقبولیت میں تو کوئی اضافہ نہ ہوا البتہ سیاسی بلنڈرز ان کی مقبولیت میں کمی کا باعث بن رہے ہیں ۔ دور حاضر کی نئی ایجادات’’ سوشل میڈیا،ٹویٹراور وٹس ایپ ‘‘سے تحریک انصاف نے اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف میاں نواز شریف کی کر دار کشی کی مہم شروع کی تو وزیر اعظم محمد نواز شریف کی ہونہار صاحبزادی مریم نواز جو سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی خاتون ہیں کی سربراہی میں ایک ’’تھنک ٹینک‘‘ قائم کر دیا گیا جس میں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ،مریم اورنگ زیب،دانیال عزیز ، چوہدری ،طلال چوہدری ،محمد زبیر ،مائزہ حمید شامل ہیں۔ جب تک سینیٹر پرویز رشید ’’زیر عتاب نہیں تھے اس وقت تک وہ بھی اس’’ تھنک ٹینک ‘‘کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے ہیں مسلم لیگ (ن) نے کبھی اس’’ تھنک ٹینک ‘‘ کے وجود کا اعتراف نہیں کیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کے وجود کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اس’’ تھنک ٹینک‘‘ کے وجود کو عمران خان بھی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ یہ ’’تھنک ٹینک‘‘ نہ صرف سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی قیادت کا تعاقب کرتا رہتا ہے بلکہ عمران خان جس لب و لہجہ میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف بات کرتے ہیں اسی لب و لہجہ میں جواب دینے کے لئے ہر وقت تیار کھڑیا رہتاہے عمران خان نے اس تھنک ٹینک سے زچ ہو کر ہی اس کانام ’’موٹو گینگ ‘‘ رکھ دیا ہے پیپلز پارٹی اسے ’’گالم گلوچ بریگیڈ ‘‘ کہتی ہے۔ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ہر ٹی وی ٹاک میں موجود ہوتے ہیں اور تحریک انصاف کی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ وہ وزیر مملکت برائے کیڈ کی حیثیت سے اسلام آباد کو ماڈل سٹی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ، مریم اورنگ زیب قومی اسمبلی کی رکن طاہرہ اورنگ زیب کی صاحبزادی اور نجمہ حمید کی بھانجی ہیں انہوں نے پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ کے لئے درخواست دی تھی انہیں بوجوہ پنجاب اسمبلی کا ٹکٹ نہ ملا تو بیگم کلثوم نواز جو ’’ہیرہ شناس‘‘ خاتون ہیں۔ مریم اورنگ زیب کو قومی اسمبلی میں لے آئیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔ مریم اورنگ زیب نے جلد وزارت داخلہ کی پارلیمانی سیکریٹری کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں منوالیں۔ تھنک ٹینک کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی تھیں سینیٹر پرویز رشید سے وزارت اطلاعات کا قلمدان واپس لے لیا گیا تو مریم نواز کی نظر انتخاب مریم اورنگ زیب پر پڑی اور ان کے سر پر وزارت کا’’ تاج ‘‘سجا دیا ابتدا میں مریم اورنگ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ وہ سینیٹر پرویز رشید کی جانشین ہونے کا حق ادا نہیں کر سکیں گے لیکن چند دنوں میں ہی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا عمران خان نے ملکی سیاست میں جس کلچر کو متعارف کرایا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے دانیال عزیز اور طلال چوہدری ہی کافی ہیں لیکن جب سے مریم اورنگ زیب نے ’’شیرنی‘‘ کی طرح عمران خان کو چیلنج کرنا شروع کیا ہے عمران خان نے مریم نواز کی نقلیں اتارنا شروع کر دی ہیں گو ابھی تک طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو وزارت کے منصب نہیں دیا گیا لیکن ان کی اہمیت کئی وزراء سے بڑٖھ گئی ہے انہیں غیر اعلانیہ طور پر مسلم لیگ(ن) کے’’ ترجمان‘‘ کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ اس وقت سیاسی محاذپر پس پردہ رہ کر مریم نواز وزیر اعظم محمد نواز شریف کی معاونت کر رہی ہیں۔ سپریم کورٹ میں پاکستان کی عدالتی تاریخ میں لڑی جانے والی بڑی ’’جنگ‘‘ میں شدت پیدا کرنے الزام تراشی کا بڑا کردار ہے تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ممکن ہے عمران خان اپنی انتخابی حکمت عملی کے تحت کے نواز شریف کو ’’چور اور ڈاکو‘‘ کہہ کر یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وزیر اعظم محمد نواز شریف ملک میں غیر مقبول ہو جائیں گے۔ حال ہی میں ایک معتبر ادارے کے کئے گئے سروے کے مطابق وزیر اعطم محمد نواز شریف کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی پچھلے 10ماہ کے دوران پانامہ پر ہنگامہ ملکی سیاست پر اثر انداز نہیں ہوا البتہ ایک دوسرے پر الزام تراشی سیاسی ماحول کو مکدر بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے وفاقی وزراء خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق’’ تھنک ٹینک‘‘ کے رکن نہیں لیکن جب وہ بھی’’تھنک ٹینک ‘‘ کی مدد کو آگئے تو دو دن میں ہی آگ لگا دی۔ خواجہ سعد رفیق جیسا شعلہ بیان مقررکسی سیاسی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں تحریک انصاف میں ان جیسے مقررین کی کمی ہے خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کو پیشکش کی کہ اگر وہ سپریم کورٹ میں پانامہ پیپرز لیکس کیس کی سماعت کے بعد اپنی
’’عدالت‘‘ نہ لگائیں تو وہ بھی کوئی جواب نہیں دیں گے اگلے روز عمران خان نے پریس کانفرنس سے خطاب نہ کیا تو’’ سیز فائر‘‘ کا تاثر اجاگر ہوا جس کے بعد خواجہ سعد رفیق بھی خطاب کئے بغیر سپریم کورٹ سے چلے گئے لیکن ’ تحریک انصاف نے ’ غیر اعلانیہ ‘‘ سیز فائر کی تردید کردی اور اس بات پر اصرار کیا کہ تحریک انصاف مسلم لیگ(ن) کے ’’موٹو گینگ ‘‘کا جواب دے گی ایسا دکھائی دیتا ہے تحریک انصاف کی قیادت2017ء میں اپنے انتخابی مقاصد کے لئے ’’الزام تراشی‘‘ کی سیاست جاری رکھنا چاہتی ہے مسلم لیگ(ن) بھی تحریک انصاف کے لئے میدان خالی نہیں چھوڑنا نہیں چاہتی۔ مسلم لیگ(ن) کے پاس عمران خان سے بہتر انداز میں دشنام طرازی کرنے والوں کی’’ فوج ظفر فوج ‘‘ موجود ہے۔ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو یہ ہماری بدقسمتی ہو گی سیاسی اخلاقیادت کا جنازہ نکل جائے گا سیاسی ماحول مکدر ہونے سے جمہوریت کمزور ہو گی۔

مزیدخبریں