ساتھ ساتھ چلتے مظاہرے اور حلف کے لمحات ، صدر ٹرمپ نے سب سے پہلے امریکہ کے پر امید نعرے کے ساتھ 4سالہ عہد کا حلف اٹھا لیا جو گرچہ بہت مشکل نہیں مگر اتنے آسان بھی نہیں ثابت ہونگے۔دل میں کینہ رکھنے کی بجائے منہ سے بول دینے پر یقین رکھنے والا شخص ، حقائق چاہے کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں۔ بے شک ساری دنیا کی مالیاتی مارکیٹ کریش کر جائے۔ دنیا کی واحد سپر پاور کے اپنے اپنے دور کے با جبروت طاقتور ترین سابقہ صدور سب کھڑے تھے عام لوگوں کی طرح ، الگ سے نہیں بلکہ اک بڑے ہجوم کا حصہ بنے ہوئے۔ نہ نخرہ نہ خصوصی نشست کا تقاضا نہ ضد ” سب سے پہلے امریکہ“ سننے میں بہت بھلا معلوم ہوا۔ ہمارے ایک صدر نے بھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا اور اس نعرے کے اتباع نے ملک کو تورا بورا بنا کر رکھ دیا۔ نتائج سب کے سامنے ہیں خیال رہے کہیں موصوف کا عزم ویسی تصویر نہ بنا ڈالے۔ دوسری طرف صرف ” تقریر“ پر نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ امریکہ کے6سو مقامات احتجاج پر ہیں۔
”عوام حکمران بن گئے“
” امریکی مصنوعات خریدو اور امریکیوں کو نوکری دو کے متنازع نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ آج کا دن تاریخی ہے، آج اقتدار عوام کو منتقل ہو گیا۔ آج عوام حکمران بن گئے ہیں۔ خوشی منانے کا مشورہ، مگر عوام تو کسی اور ہی راہ پر چل پڑے، خیر عوام کے ہاتھوں میں حکمرانی کی منتقلی کے پُر سعید لمحہ پر ہماری استدعا ہے کہ اپنی خوشی میں اس محبوس خطے کے استحصالی نظام میں بندھے لاچار، محروم وسائل عوام کو بھی شریک کر لیں۔ اس طرح کہ ہمیں ہمارا” حق حکمرانی“ لوٹا دیں۔ ہمای تقدیر اپنے ہاتھوں لکھنے اور اپنے خوابوں کی تعبیر کی خود سے تشریح کرنے دیں، صرف امریکی سر زمین پر آباد قوم اپنی خوشی سے محروم نہیں ہی۔ اپنی دھرتی پر ہم سب سے زیادہ محروم، قید عوام ہیں اپنے خوابوں کے ساتھ ہمارے خواب بھی واپس لانے اور پورے کرنے میں ہماری مدد کریں۔ ہم بھی ایک قوم ہیں ، ہمارے گھر بار ہیں ہمارے پرکھوں نے زمین کا یہ ٹکڑا ایک پر امن محفوظ زندگی گزارنے کیلئے حاصل کیا تھا، یہ کامیابی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی گئی تھی بلکہ آگ کا ایک سلگتا پہاڑ عبور کیا تھا۔ یقینا خون سفید یا کالا نہیں ہوتا بلکہ صرف ” لال“ ہوتا ہے مگر کبھی اپنوں کے کٹے لاشوں پر پھلانگ کر تیرنا پڑے تو دل پر کیا قیامت گزرتی ہے صرف پارکرنے والے ہماے اجداد جانتے ہیں اسلئے مداخلت بے جا ختم کر دیں ” سب سے پہلے امریکہ“۔
”نئی سوچ“
” صدر ٹرمپ“ نے نئی سوچ امریکہ پر حکمرانی کرے گی کہتے ہوئے کہا کہ اب نہیں کریں گے اپنے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے دوسرے ممالک سے دوستی والی بات معیوب نہیں۔ روز گار امن اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی عوام کا حق ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ دای ہے۔ دل کش نعروں اور پر فریب نعروں سے 8-8سال گزارنے والے وہائٹ ہاﺅس کے سابقہ مکینوں سے یکسر مختلف ہیں مگر بہت سارے امور میں پہلے سے متنازع ہو چکے ” ٹرمپ“ کے اولین اقدامات کے نتائج آنے والے مہینوں میں ظاہر ہونگے۔ سامعین کے سامنے تقاریر کا ایک خاص ماحول ہوتا ہے جبکہ معاملات میز کرسی پر فرد واحد نہیں کلیدی ریاستی افراد کے ساتھ بیٹھکر طے کیے جاتے ہیں۔ آپ ممکن بنائیں کہ نئی سوچ صرف امریکہ پر اپنی کرنیں نہ بکھیرے بلکہ اس کے مفید اثرات کے نتائج اور پھل ساری دنیا چکھے اسلامی انتہا پسندی کے خلاف نئے بلاک بنانے سے زیادہ ضروری ہے کہ دنیا پر قبضہ گیری کی جبلت کا خاتمہ ہو۔ عالمی طاقتوں کی جاگیر دارانہ سوچ کو بدلا جائے۔متکبرانہ انداز میں حاکمانہ فیصلے سنانے کی لت سے جان چھڑوائی جائے۔ دنیا کے آزاد پیدا ہونے والے باشندے کسی کے مزارع نہیں، انتہا پسندی کو صرف اسلام سے جوڑنے کی قبیح روش کو بھی ” نئی شوچ“ کی دھونی دیں۔
” ہم سب کو تحفظ دیں گے“
امریکی قوم کو نسلی تضادات سے بالا تر ایک قوم کہتے ہوئے کہا کہ کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم سب کو تحفظ دیں گے۔ فی الوقت تو عوام آپ کی باتوں وعدوں پر اعتبار کرتے نظر نہیں آتے۔ ملک کا اکثریتی حصہ صرف تقریر پر سراپا احتجاج بن گیا تو کل کلاں کسی اور نعرے کو اپنا لیا۔قدم اٹھا لیا تو حالات کی کیا صورت بنتی ہے آج تک ہم بھگتتے آئے ہیں کل امریکی سر زمین بھی ” لمبے بوٹوں“ کی چاپ سن سکتی ہے طویل عرصہ سے نسلی تعصبات کے شکار ملک میں آنے والے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں فی الوقت فوری تجزیہ کرنا ممکن نہیں مگر مثبت رخ اب نظر نہیں آتا۔ ابھی کچھ ماہ انتخابی منشور پر نظر رہے گی مگر نجانے کیوں اندیشہ ہے کہ امریکہ میں وہی جنگ چھڑنے والی ہے جو چنگاریوں کی صورت کبھی سلگتی اور کبھی بجھتی رہی ہے۔ شاید اس جنگ مماثل جو عالمی قوتیں دوسرے ممالک کے ساتھ لڑتی آ رہی ہیں۔ مسلم غیر مسلم بلاک کی طرح وائٹ امریکن بلیک امریکن پندرہ رکنی کابینہ میں صرف ایک سیاہ فام ہم سب کو تحفظ دیں گے مگر کیا نسلی تعصب برت کر اپنی صدارت کا حلف اٹھانے سے پہلے کے تمام عہد امریکی تاریخ حکمرانوں کو کوسنے والے ” صدر ٹرمپ“ نے پہلی نشری تقریر میں ایسا خط تنسیخ پھیر کر اپنی حکومت کے پہلے اختلافی فسادی بیج کو پانی دیدیا ہے۔ معروضی حقائق کے مطابق چلیں گے۔ تو آسانی ہے جبکہ انتخابی تقریروں پر عمل درآمد کی صورت میں دنیا تیسری منظم عالمی جنگ جلد دیکھ لینے کی امید رکھے۔ منظم اسلئے لکھا کیونکہ عالمی نقشے کی تفصیلات جنگ کے پہلے سے جاری ہونے کی تصدیق کر ہی ہیں، دنیا کا کوئی ملک خطہ شہر آج محفوظ نہیں۔
آزادی دلانے کے نعرے نے مڈل ایسٹ سے نکل کر فرانس تک راہ دیکھ لی ہے تو سارا قصور تباہ کن پالیسیاں بنانے والوں کا ہے۔ ان سب کا سرخیل ” امریکہ“ تھا۔ اب اگر صدر ٹرمپ نے نئی سوچ اور اپنی سرحدوں تک محدود رہنے کا عندیہ دیا ہے تو امید رکھنی چاہئے کہ ہم ایک محفوظ کل کی طرف جا سکتے ہیں اگر طاغوتی طاقتیں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ ہراساں، خوفزدہ، ہو کر نئی گیم نہ شروع کروا دیں لمحہ موجود کے آثار، قرائن تو ایسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔