گزشتہ دنوں آرٹس کونسل ہال میں منعقد ہونے والی شامِ غزل کے بعدپاکستان آرمی کے حاضر سروس میجر شہزاد نیئر نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں اسی شہر میں پلا بڑھا ہوںاور نوجوانی میں ہی پاک فوج کو جوائن کرنے کے بعد شہر میں عملی طور پر رہنا بہت کم نصیب ہوا۔ میجر شہزادنیئر کو علمی و ادبی حلقوں میں اپنا نام بنائے بہت عرصہ بیت گیا ہے ۔وہ ملکی سطح پر شعر و ادب کی محافل کی جان سمجھے جاتے ہیں۔اس حوالے سے ان کی لکھی کتب بھی مارکیٹ میں آچکی ہیں۔وہ کہتے ہیں گوجرانوالہ کو دنیا بھر میں پہلوانی کے شہر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ شہر ملکی سطح پر لوہے کی بنی ہوئی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے میں بھی اپنا ایک اہم کر دار ادا کررہا ہے ۔گوجرانوالہ کی بنی ہوئی چیزوں کی پورے ملک میں مقبولیت ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کہ لوگ اپنی تیار کی ہوئی چیزوں میں خالص لوہا استعمال کرتے ہیںاور اسی وجہ سے میجر صاحب سمجھتے رہے کہ یہاں کے رہنے والے شاید سخت مزاج ہی ہوں گے مگر شامِ غزل میں حاضرین محفل کے شوق کو دیکھتے ہوئے وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ شہر تو اصل میں محبتیں بانٹنے والا شہر ہے۔یہ اپنے درمیاں آنے والے ہر انسان کا دامن خوشیوں سے بھر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب جب ان کی چھٹیاں ختم ہورہی ہیں اور وہ اپنی ڈیوٹی انجام دینے کوئٹہ جارہے ہیں۔ شہر گوجرانوالہ میں سجائی جانے والی ادبی محافل کوئٹہ کے خون جما دینے والے موسم میں ان کے خون کو حرارت دیتی رہیں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پہلوانوںکے شہر گوجرانوالہ میں ہر طرح کی لوہے کی جدید اور قدیم فیکٹریاں کام کر رہی ہیں جو ملکی ضرورت پوری کرنے میں اہم کردار ادا رکرتی رہی ہیں مگر بقول سلیمان کھوکھر علم و ادب کے حوالے سے بھی یہ شہر کبھی بنجر نہیں تھا۔پچھلے دنوں سائبان کی محفل مشاعرہ میں بات کرتے ہوئے نوائے وقت کے سینئر کالم نگار اور پرانے سیاسی کارکن و راہنما نے جہاں سائبان کی محفلوں کو سراہا وہیں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ یہ شہر ہمیشہ سے ہی علم دوست لوگوں کا شہر رہاہے ۔اس شہر نے ہر دور میں علمی و ادبی محافل کو زندہ رکھا ہے۔
یہاں کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ یہ خزاں کے موسم میں بھی بہار کے پھول کھلاسکتی ہے ۔اس شہر میں ہر وقت زندگی اپنے جوبن پر دکھائی دیتی ہے ۔ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ شہر میں موجود پرانے چاہے خانے اور ادبی بیٹھکیں اب کچھ عرصے سے بند ہوتی نظر آرہی ہیں مگر جب بھی کسی نے آواز دی اس مٹی کی خاصیت ہی ایسی ہے یہاں کے لوگ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے ادبی محافل کی رونقیں بڑھانے کے لیے سرگرم نظر آئیں گے۔ہاں یہ بہت ضروری ہے کہ اب نئے لوگوں کو اس طرف لانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے آج کے بچے گھروںمیں ہی قید ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں اکثر ہیجان اور افراتفری کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں‘ اگر ہم اپنے بچوں کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا کل روشن نہ ہوسکے۔سائبان ادب وثقافت اور ریڈیو آواز کے اشتراک سے ایک شاندار شامِ غزل کا اہتمام آرٹس کونسل ہال گوجرنوالہ میں کیا گیا۔5گھنٹے تک جاری رہنے والی اس شاندار محفل میں شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔آرٹس کونسل ہال میں یہ سائبان کی دوسری تقریب تھی۔کامیا ب محفلِ مشاعرہ کے بعد شام غزل میں ایک بارپھر حاضرین کے لیے جگہ کم پڑ گئی۔ سائبان ادب و ثقافت نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر مقامی غزل گانے والوں کو ترجیح دی اور مقامی فنکاروں نے شاندار طور پر پرفارم کر کے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی حیثیت منوانے کے لیے ایسے ہی کسی موقع کے انتظار میں تھے۔مقامی فنکاروں کے علاوہ شہریوں نے بھی سائبان ادب و ثقافت کی کوششوں کی بھر پور تعریف کی اور ایسے پروگرام ایک تسلسل سے جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔چیئرمین ادب وثقافت عتیق انور راجا‘ جنرل سیکرٹری دلدار احمد‘ ثمینہ عرفان صدر شعبہ خواتین‘ جوائنٹ سیکرٹری طاہر نعیم منہاس‘ نیوزڈائریکٹر ریڈیوآواز تسنیم چیمہ‘ مہر محمد آصف‘ اظہر دیوانہ، مکرم حسین اور خرم شہزاد بھٹہ نے حاضرین کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس محفل میں خوش آمدید کہا۔ تسنیم چیمہ نے بہت خوبصورت اور دلکش انداز میں پروگرام کی نظامت کی۔ دلداراحمد نے تقریب کے آغاز میں حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم ایسے پروگرام تسلسل کے ساتھ کرنے کا عہد کرچکے ہیں جن فنکاروں نے اس شام کو چار چاند لگائے‘ ان میں فیاض اروپی‘ ڈاکٹر نعیم، آبرائین اور دوسرے بہت سے مقامی فنکار شامل تھے۔استاد سجاد بری لاہور سے سپیشل اس تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔ان کی گائی ہوئی غزل نے حاضرین کے دلوںکے تار چھیڑ دیئے۔تقریب کے آخر میں چیئرمین ادب وثقافت عتیق انور راجا نے کہا کہ ہمیں معلوم تھا کہ سول سوسائٹی ہمیں بھرپور سپورٹ کرے گی کیونکہ یہ زندہ دل لوگوں کی دھرتی ہے۔ یہ علم دوست اور فنکار دوست لوگوں کی سرزمین ہے اور بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ سول سوسائٹی نے ہماری توقعات سے زیادہ ہمیں عزت دی ہے جس سے ہمیں مستقبل کے لیے ایسے کام کرنے میں بہت آسانی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ نئی نسل کو بہتر ماحول فراہم کرنا ہے۔اس لیے سائبان ہر اس کام کو کرنے کے لیے تیار رہے گا جس سے معاشرے کو صحت مند تفریح ملتی رہے ۔سائبان نئے لکھنے والوں‘ شاعروں‘ لوک فنکاروں‘ ادیبوں کے ساتھ صحت کے شعبے میں بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ آنے والے چند دنو ں میں سائبان شہر میں غریب لوگوں کے لیے فری ڈسپنسری کے قیام کے لیے کوشش کر رہا ہے اور ایسے بہت سے سلسلے انشاء اللہ چلتے رہیں گے۔ محبتیں بانٹنے والا شہر دوسرے علاقے میں رہنے والو ںکے لیے ایک راہ متعین کرنے کی کوشش کرے گااور امید ہے محبتوںکی یہ کہانی پورے ملک میں سفر کرے گی۔