ہمارا کیا بنے گا… فالودہ ، چٹنی، سُرمہ …؟

ایک مقروض ، مجبور، بیروز گار قوم کے عجیب و غریب سیاسی رہنمائوں نے جعلی مینڈیٹ اور جعلی مقبولیت کیلئے کروڑوں کے جلسے جلوس کر رکھے ہیں۔ ہر روز جلسے ہوتے ہیں کبھی ن لیگ کراتی ہے کبھی پیپلز پارٹی کبھی تحریک انصاف کبھی ایم کیو ایم اور کبھی کوئی … بعض دن تو ایک دن میں چار چار جلسے بھی ہوتے ہیں۔ ابھی نہ تو الیکشن کا وقت آیا اور نہ ہی الیکشن ہونے کی کوئی امید ہے کہ جلسے کئے جائیں۔ جلسے بھی اس طرح ہوتے ہیں کہ لاکھوں کا سٹیج بنایا جاتا ہے۔ اتنے بڑے بینرز سائن بورڈ، ہورڈنگز، لائٹنگ ، سائونڈ سسٹم ، میوزک، کرسیاں، قناعتیں ، اشتہارات اور بے شمار ترغیبی حربوں کیلئے کروڑوں روپیہ لگایا جاتا ہے جس میں سر فہرست قورمے بریانی زردے کی دیگیں اور انواح و اقسام کے مشروب ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ آنیوالوں کو ایک ایک ہزار روپیہ دیا جاتا ہے۔ لوگ کھانے اور پیسوں کے لالچ میں کھینچے چلے آتے ہیں۔ ایک مفلس قلاش مقروض قوم کیلئے اچھا کھانا نصیبوں کی بات ہے۔ پاکستان میں سات کروڑ ووٹ صرف ایک بریانی کی پلیٹ اور پانچ سو کے نوٹ پر مل جاتا ہے۔ جب ووٹ کی یہ قیمت اور ساکھ ہو تو آپ اپنے ارب پتی اور کھرب پتی ہونے کا بہت آسانی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ عمران خان کے جلسوں میں ہزاروں لاکھوں لوگ ہوتے ہیں لیکن جب الیکشن کا رزلٹ آتا ہے تو مخالف جماعت ہیوی مینڈیٹ سے جیت جاتی ہے۔ خیر عمران خان کا نہ جیتنا بھی اچھی بات ہے کیونکہ عمران خان نے بھی کے پی کے میں کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی بنیاد پر قوم انہیں وزیر اعظم بنائے بلکہ عمران خان کو وزیر اعظم بننا ہی نہیں چاہئے، ورنہ وہ بھی یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف ٹائپ کے وزیر اعظم ثابت ہونگے۔ وزیر اعظم بن کر ان کی پھر شادیوں کی پسوڑی ختم نہیں ہو گی اور نئے نئے افیئرز سامنے آئیں گے کیونکہ اب تو وہ شلوار قمیض میں آتے ہیں اور گلا پھاڑ کر تقریریں کرتے ہیں۔ وزیر اعظم بن گئے تو تھری پیس سوٹ، ٹائی، چمچماتے جوتے اور پرفیومز میں نہائے ہوا کرینگے۔ شیرو بنا ں بھی زیب تن کرینگے اور گاہے بگاہے اپنی ڈینٹنگ پینٹگ بھی کروایا کرینگے تو ظاہر ہے کہ اپنی کافی زیادہ عمر کے باوجود خوبصورت بھی لگیں گے اور پھر دوبارہ سے1992ء ورلڈ کپ والے ہیرو بن جائینگے، پھر معاملات دوسری طرف نکل جائینگے اس لئے پاکستان عمران خان کو بطور وزیر اعظم قبول کرنے کا متحمل نہیں ہے۔ خود عمران خان کے جلسے بھی لاکھوں کروڑوں کے بجٹ سے ہوتے ہیں جبکہ وہ حکومتی عہدیدار نہیں ہیں، وزیر اعظم بننے کے بعد تو ان کے جلسوں کا سماں ولیمے جیسا ہوا کریگا… اور پاکستانی قوم مزید ٹیکسوں کا بوجھ اٹھا کر قوم خزانہ نہیں بھر سکتی آجکل پیپلز پارٹی بھی جگہ جگہ جلسے کر رہی ہے۔ روز کراچی میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور یہ پولیس مقابلے کی قیمت ہوتی ہے۔ مال اکٹھا کیا جاتا ہے اور یہ سارا مال پانی کی طرح زرداری اور بلاول کے جلسوں پر بہایا جاتا ہے حالانکہ کروڑوں اربوں روپیہ خرچ کر کے بھی زیادہ سے زیادہ بلاول نے ایم این اے بن جانا ہے۔ اسکے علاوہ سیٹیں زرداری، آصفہ، فریال اور عذرا کو مل جائیں گی، چالیس ارب کا خرچہ کر کے پیپلز پارٹی یہ چار سیٹیں جیت سکے گی لیکن یہ چار ارب عوام کی جیبوں سے نکالے جائینگے۔ سابق اور نا اہل وزیر اعظم میاں نواز شریف کا اخلاقی فرض تھا کہ تین ناکام ترین باریوں کے بعد تائب ہو جاتے۔ چلو کسی اور کو وزیر اعظم نہ بننے دیتے لیکن اپنی پارٹی کے کسی سینئر اور قابل شخص کو وزیر اعظم بنا دیتے تو ن لیگ کی حکومت با عزت طریقے سے قائم رہتی۔ اپنی غلطیوں بلکہ کوتاہیوں کا احساس کر کے مستعفی ہو جاتے تو ’’ نا اہلی‘‘ کا بد نما داغ بھی نہ لگتا۔ اب بھی اگر بھائی کو نامزد کیا ہے۔ جانشین مقرر نہ کرتے۔ جانشینی کا فیصلہ سراسر اہلیت کی بنیاد پر ہوتا ہے اور مریم نواز کا تو ابھی کوئی سیاسی کردار ہی سامنے نہیں آیا بلکہ ڈان لیکس، پانامہ لیکس، اقامہ لیکس، قطری لیٹر بکس اور بے شمار کیسز ہیں جس میں نواز شریف کے کیسوں کی لیکج ہوئی ہے۔ ان سب کا کریڈٹ مریم نواز کو جاتا ہے۔ 25سال بعد چار بار یاں گزار کر یاد آ گیا کہ باب پاکستان بھی مکمل کرنا ہے۔ یہ ملک جن لوگوں نے بنایا ہے۔ ان کا بھی اس پر کوئی حق ہے، میاں برادران نے تو سوچ لیا تھا کہ بس اس ملک سے عزت ،دولت ،شہرت ،وزارتیں، صدارتیں، امارتیں، عمارتیں، تجارتیں اور غیر ملکی دورے ہی کرنے ہیں۔ جن لوگوں نے قربانیاں دیکر یہ ملک بنایا، ان کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا جو لوگ مسلم لیگ کے اصل والی وارث ہیں۔ ان کو پاتال میں گرا دیا گیا ۔ کارکنان میں سے کئی مر گئے لیکن شہباز شریف نے غریب اور مستحق کارکنان تحریک پاکستان کو ان کے پلاٹ دیدہ و دانستہ نہیں دیئے۔ اب باب پاکستان کا پھر افتتاح کر کے شہباز شریف نے جہاں کارکنان تحریک پاکستان کے زخموں کو ہرا کیا ہے۔ وہاں باب پاکستان پر پاکستان بنانے والوں کی خدمات کو سراہنے کے بجائے سیاسی پھپھولے پھوڑے ہیں۔ باب پاکستان پر آڈیٹوریم ، فوڈ کورٹ،سپورٹس کمپلیکس، آرٹ گیلری، میوزیم کا کیا فائدہ، جن کارکنوں کے پاس سر چھپانے کیلئے چھت نہیں، ان کے بچوں کے پاس تعلیم کے باوجود نوکری نہیں، بیماری میں علاج نہیں، کھانے کیلئے روٹی پہننے کیلئے کپڑے نہیں، جیب میں پیسے نہیں… تو خالی پیٹ، ننگے جسم اور دکھتے ذہن کے ساتھ کیا تحریک پاکستان کے کارکنان کیا اڈیٹوریم میں آ کر آپ کی لامعنی گفتگو سنیں گے۔ افسوس ! عقل اور عوام دشمن حکمرانوں کو کون یہ جاہلانہ مشورے دیتا ہے کہ آپ وہ کام کریں کہ مستحق اور ضرورتمند لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک دو۔ ان کو گھائو میں اور چرکے لگائو، ا کی زندہ چتا جلائو، میاں شہباز شریف آپکو چاہئے کہ 117ایکڑ میں سے سو ایکڑ رقبے پر کارکنان تحریک پاکستان کے زندہ مصلوب ہونیوالے ان عظیم محسنوں کے مومی مجسمے بنوا کر ایسادہ کر دیں۔ اس سے ساری دنیا میں ’’باپ پاکستان‘‘ کی نمائش ہو گی۔ لاکھوں سیاح آئینگے اور کھربوں روپے کی ماہانہ آمدنی ہو گی۔ میوزیم میں بھوک اور افلاس کے ماروں کی ممیاں رکھ دی جائیں۔ جن لڑکیوں کی شادیاں جہیز کی وجہ سے نہیں ہوئیں، انہیں عبرت کی تصویر بنا کر ایستادہ کر دیا جائے۔ نوکریوں کیلئے جوتیاں گھسیٹنے والے نوجوانوں کی مورتیاں سجائی جائیں اور بوڑھے کارکنوں کی حسرت وبیماریوں سے چور تصاویر کی نمائشیں لگائی جائیں۔ کارکنان تحریک پاکستان کیلئے مالی و جان کی قربانیاں دینے والوں کے لواحقین کے دکھ آویزانں کئے جائیں تا کہ دنیا کو عبرت ہو کہ ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ وارنے والوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے۔ انکے جذبات کا فالودہ انور مربہ بنا کر کھا لیا جاتا ہے ان کی کھال سے چٹنی بنا لی جاتی ہے اور ان کی ہڈیوں کا سرمہ بنا دیا جاتا ہے، اس ملک میں عوام الناس کے ساتھ تو جو ہوتا ہے، سو ہوتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن