بعض شخصیات کو اللہ تعالیٰ مختلف خصوصیات ودیعت کرتا ہے اور انکی ذات مختلف اوصاف کا مجموعہ ہوتی ہے بعض اوقات یہ خصوصیات تضاد کی بھی حامل ہوتی ہیں مگر اس تضاد کے باوجود ان کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یکم فروری 1934میں شیخو پورہ کے چوہدری فضل دین کے ہاں جنم لینے والے بریگیڈئیر (ر) مختار احمد بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جو مختلف خصوصیات کا مجموعہ ہیںجن کے جد امجد چوہدری فتح محمد ہوشیار پور سے آکرشیخوپورہ میں قیام پذیر ہوئے۔ اگلے روز ان سے میری ایک تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں میرے ہمراہ علم و ادب اور صحافت کی معروف شخصیت اقبال حسین لکھویرا بھی تھے دوران گفتگو بریگیڈئیر (ر) مختار احمد نے بتایا کہ قیام پاکستان کے وقت میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور اپنے ہم جماعت اور ہمجولیوں سے مل کر پاکستان کے حق میں نعرے لگایا کرتا تھا اور یوں میری فطرت میں پاکستان کی محبت رچ بس گئی اور مجھے فوج میں شامل ہونے کا شوق پیدا ہوا اور اللہ کے فضل وکرم سے ترقی کرتے کرتے میں بریگیڈئیر کے عہدہ تک پہنچا اور بھارت کے خلاف دو جنگوں میں حصہ لیا۔ سقوط بنگلہ دیش کے بارے میں انہوں نے بتایاکہ یہ غلط ہے کہ پاکستانی فوج کے نوے ہزار جوانوں نے ہتھیار ڈالے۔ انہوں نے مغرب کے غیر جانبدار تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا کہ دنیا کی ایک معروف تجزیہ کار سرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ہتھیار ڈالنے والے پاکستانی جوانوں کی تعداد 43ہزار تھی جبکہ باقی کا تعلق دیگر شعبوں سے تھا اور یہ ان کو بھی ملا کر تعداد 90ہزار بتاتے ہیں جو درست نہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت کے مشرقی پاکستان میںموجود جوانوں کے بارے میں بنگالی خواتین کے ساتھ زیادتی کے جو واقعات بیان کئے جاتے ہیں وہ سراسر بے بنیاد ہیں اور ایک ذی فہم آدمی خود سوچ سکتا ہے کہ حالت جنگ میں جبکہ جوانوں کے سامنے زندگی اور موت میں ذرا سا فاصلہ ہو تو وہ ایسی حالت میں کسی بھی طور سوائے جنگ یا شہادت کے حصول کے کسی اور قبیح حرکت کے بارے میں تصوربھی نہیں کر سکتے۔ انہوںنے بتایا کہ نامی گرامی فاحشہ عورتوں سے پاکستانی جوانوں کیخلاف بیانات دلوائے گئے تاکہ جوانوں کو رسوا کیا جا سکے۔ انہوںنے بتایا کہ میں خود اڑھائی سال جنگی قیدی رہا اور دشمن کی قید میں اذیت کی زندگی گزاری انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہمارا پیارا وطن ، قومی پرچم اور پیاری دھرتی فوج کے ہر جوان آفیسر کی پہچان اور آن ہے اور وہ اس کیلئے ہر دم کٹ مرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی لیڈروںکے بچے سرحدوں پر جنگ کرتے ہوئے شہید ہوجائیں تو ان پر کیا گزرے گی۔ انہوںنے سوالیہ انداز میں کہا کہ کیا آج تک کسی سیاسی لیڈر کا بیٹا دفاع وطن پر قربان ہوا ہے؟ یہ ہمارے جوان ہی ہیں جو مادر وطن پر جانیں نثار کرتے ہیں انہوںنے کہا آج بھی ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کوئی نہ کوئی جوان یا آفیسر اپنے وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہورہا ہے۔ جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمارے جوانوں کو جان سے زیادہ ملک کا تحفظ عزیز ہے۔انہوں نے دوران گفتگو یہ بھی بتایا کہ میرے دو صاحبزادے ہیں جن میں سے ایک ڈاکٹرندیم مختار ہیں، جن کو میں نے انسانی خدمت کیلئے ڈاکٹر بنایا جو گونگے اور بہرے لوگوں کے ماہر معالج ہیں ان کا علاج کرکے انکی قوت سماعت اور قوت گویائی بحال کررہے ہیں اور دوسرے صاحبزادے نوید مختار کو فوج میں شامل کیا کہ وہ وطن عزیز کی دفاعی خدمت سرانجام دیں جو اس وقت لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پرفائز ہیں۔ بریگیڈئیر (ر)مختار احمد کی شخصیت کا دوسرا پہلو تحفظ طائران اور دیکھ بھال ہے۔ ان کے بقول انہوںنے 1965اور 1971کی جنگیں لڑتے ہوئے دیکھا کہ ان جنگوں میں صرف انسان ہی نہیں سینکڑوں پرندے اور جانور بھی لقمہ اجل بنے اور میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد انکے تحفظ کو اولین ترجیح دی اور اس حوالے سے میں عالمی فنڈر برائے فطرت کا صدر رہا اور اس وقت میں ورلڈ فیزنٹ ایسوسی ایشن، حبارہ (تلور) فائونڈیشن انٹرنیشنل پاکستان، فالکن فائونڈیشن انٹرنیشنل پاکستان، ڈیئر (ہرن) فائونڈیشن انٹرنیشنل پاکستان اور ہیومن ویلفیئر اینڈ نیچر کنزویشن سوسائٹی کا بانی صدر ہوں انہوں نے بتایا کہ ان تنظیموں کے تحت ہم تلور ، فیزنٹ ، ہرن اور عقابوں کے تحفظ کیلئے کام کرتے ہیں اور ملک میں جہاں جہاں یہ پرندے اور جانور موجود ہیں۔ ان کو خوراک فراہم کرتے ہیں ان پرندوں اور جانوروں کیلئے کام کرنے کے دوران ہم نے دور دراز علاقوں میں آج کی جدید دور کی سہولیات سے محروم لوگوں کو دیکھا تو 1995میں ہم نے انسانی فلاح و بہبود اور فطرت کے تحفظ کی تنظیم ہیومن ویلفیئر اینڈ کنزرویشن سوسائٹی قائم کی جس میں ہم ان علاقوں کے لوگوں اور خصوصاً بچوں کی فلاح بہبود اور ان کو اچھی تعلیم اور اچھا روزگار فراہم کرنے کی کوششوں کے علاوہ طبی سہولیات اور صاف پانی بھی مہیا کرتے ہیں علاوہ ازیں جنگلوں اور صحرائوں میں قدرتی طور پر پیدا ہونیوالے اشجار کی دیکھ بھال اور نشوونما بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔
ہتھیار سے تلور تک
Jan 23, 2018