چائینہ کا نواب زادہ نصراللہ

سترہ جنوری کو محترم قادری صاحب کا پیش کردہ دو ایکٹ کا سٹیج ڈرامہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ ایک ناکام سیاست دان ہی نہیں بلکہ اگر کبھی وہ ڈرامہ نگار ہونے کی ٹھان لیتے تو بھی نتیجہ یہی نکلتا۔ مال روڈ لاہور پر بہت سے سیاسی اورغیر سیاسی تھیٹر ہوتے رہے ہیں لیکن اپنی ’’فلاپیت‘ ‘ میں سترہ تاریخ کا تھیٹر اپنی مثال آپ تھا۔ سٹیج پر زرداری صاحب اور قادری صاحب کو بیٹھا دیکھ کر گزشتہ دنوں شریک چیئرمین پیپلز پارٹی کے اُس بیان والے ذخم تازہ ہو گئے جس میں انھوں نے ’’کمال فراست‘‘ کا ثبوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ قادری صاحب کی صورت میں قوم کو پھر سے نواب زادہ نصراللہ خاں جیسی شخصیت میسر آ گئی ہے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ 

طبیعت تو خیر اسی روز سے بہت بوجھل تھی جب سے زرداری صاحب کا یہ بیان سنا تھا لیکن مال روڈ پر قادری صاحب کی پرفارمنس دیکھ کر سچ پوچھیے تو سابقہ صدرِ مملکت کی سوچ پر رونا آیا اور ان کے ممدوح کی حالت پرمتلی۔ اس ملی جُلی کیفیت میں آنکھ لگ گئی اور خود کو بابائے جمہوریت، مرحوم نواب زادہ نصر اللہ خاں صاحب کے رو برو پایا۔ ان کے پر سکون چہرے پر خفیف ناگواری بھی تھی اور لطیف بے چینی بھی۔ انھوں نے حُقّے کا لمبا کش بھرا اور اپنی تمام ناگواری اور بے چینی دھویں میں میری طرف اچھال دی۔
’’یار ڈاکٹر صاحب! آپ کے دور کی سیاست کو کیا ہو گیا ہے۔ قیادت کے بحران کا رونا روتے روتے تو ہم یہاں پہنچ گئے۔ ہمارے دوست ہوں یا سابقہ دوست، سب جانتے ہیں کہ ہم نے نہ مال و منال کی ہوس پالی نہ جاہ و جلال کا لالچ کیا۔ ہم نے تو ساری زندگی جمہوریت اور نظریے کی بقا کے لیے سیاست کی۔ پھر قائدِ عوام کے داماد نے ہمیں کس سے ملا دیا۔ علامہ طاہر القادری صاحب کی علمیت کو ہمارا سلام؛ لیکن اگر اس میں کہیں مماثلت نکلتی ہو تو ہم جاہل ہی بھلے۔ زر داری صاحب کی سیاست پر ہمیں کبھی گُل افشائی کا شوق نہیں رہا تاہم اب تو حد ہی ہو گئی۔ میں’ ’راجہ بھوج اور گنگو تیلی‘‘ والے تقابل کو تو غیر پارلیمانی سمجھتا ہوں لیکن اگر فقیری اور امیری کا فرق معلوم نہیں تھا تو ’’نظام پرور اور نظام شکن‘‘ کے فرق کا پاس تو رکھ لیا ہوتا!’ ’اصول پرستی اور موقع پرستی‘‘ میں امتیاز تو برقرار رکھ لیتے! اگر لوگ بھول گئے ہیں تو انھیں یاد دلا دیجیے کہ میں اُس باپ کا بیٹا ہوں جسے حکومتِ ہند نے نواب کا خطاب دیا اور گیارہ گاؤں بطور جاگیر دیے اور میں نے شعور کی منزل پر قدم رکھا تو مجلسِ احرار کے جھنڈے تلے فرنگیوں کے خلاف صف آراء ہو گیا۔ ایوب خان نے سیاسی حکومت پر شب خون مارا تو اس کے خلاف جد و جہد کی۔ ضیاء الحق نے جمہور کی آواز دبائی تو میں نے تمام جمہوری قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ پرویز مشرف نے ہوسِ اقتدار میں پارلیمان کی بے حرمتی کی تو میں اس کی آمریت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب! جمہوری آمر ہوں یا غیر جمہوری ڈِکٹیٹر، جمہور کی آواز دبانے والوں کے خلاف میرا تو ہمیشہ سے یہی نصب العین رہا ہے کہ؛
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تُو تِیر آزما، ہم جگر آزمائیں
میں نے کچے کوٹھے سے محلات نہیں بنائے، میں تو زمینیں بیچ بیچ کر جمہوریت کی دیوی پر قربان کرتا رہا۔ جسے یقین نہیں، خان گڑھ میں میرے بِک جانے والے رقبے کو دیکھ لے اور پھر نکلسن روڈ پر میرے کرائے کے مکان تک پہنچے۔ اس پر حقیقت خود ہی آشکار ہو جائے گی کہ جھنگ سے نکل کر کینیڈا میں بس جانے والے اور جاگیر داری ترک کر کے کرائے پر دھکے کھانے والے میں کوئی مماثلت نہیں ہوتی۔ میں مذہب کی حرمت کا ایک ادنیٰ سا پاسبان تھا، میں نے کبھی عقیدے کو سیاست کے کاسے میں نہیں اچھالا۔ میں جمہوریت کا چھوٹا سا علم بردار تھا، میں نے کبھی نظام شکنی کی بات نہیں کی۔ میں اصولوں کا پجاری تھا، میں نے کبھی اصولوں کی سوداگری نہیں کی۔ میں پاکستان کے کسی بھی حلقے سے عوامی ووٹ پر کامیاب ہو سکتا تھا، میں کبھی طالع آزماؤں کا آلہ کار نہیں بنا۔ میں دستور کا محافظ تھا،میں نے کبھی آئین شکنی کا خواب نہیں دیکھا۔ میرے محترم مخالفین بھی جانتے ہیں کہ میں ہٹ جانے پر کٹ جانے کو ترجیح دیتا تھا۔ عزیزی آصف علی زرداری کے اس کسیلے دلچسپ بیان نے مجھ ہی کو نہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی چونکا ڈالا۔ زرداری صاحب کے اس بیان پر فوراً وہ مجھ سے ملیں اور کہنے لگیں کہ ’’نواب صاحب، میں آپ سے معذرت ہی کر سکتی ہوں۔ سیاسی کج فہمی سمجھ کر معاف کر دیجیے گا۔‘‘
بات تو محترمہ شہید بی بی کی درست ہے۔ اسے سیاسی کج فہمی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ قادری صاحب اور نواب صاحب میں کوئی مماثلت ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ ایک نحیف و نظار بلکہ معذور اے پی سی کی بنیاد پر ایسا مبالغہ مضحکہ خیز ہی نہیں توہین آمیز بھی تھا۔ 2013 کا دھرنہ ہو یا 2014 کی محاذ آرائی، یہ نواب صاحب کا طرزِ سیاست نہ تھا۔( اور اگر طرزِ تکلم کی بات کی جائے تو ڈھول اور شہنائی کا کیا تقابل!) رہی سہی کسر سترہ جنوری کے فلاپ شو نے پوری کر دی۔ نواب زادہ نصراللہ خان کبھی کسی کے خلاف صف آراء ہوئے تو ان کے جلسوں کا حال مال روڈ والے تھیٹر کا سا نہیں ہوتا تھا۔ وہ بھان متی کا کُنبہ جمع کر کے منڈلی نہیں سجاتے تھے۔ ان کے جلسوں میں کرسیاں یوں صاحبانِ نشست کی منتظر نہیں ہوتی تھیں۔ اور یہ تو خیر بعید از قیاس بات ہے کہ نواب صاحب کے جلسوں میں ایسی غیر پارلیمانی بلکہ بازاری زبان استعمال ہو جیسی کہ مال روڈ پر سننے کو ملی۔ نواب صاحب جیسا ادب دوست اور ادب شناس سیاست دان غیر شعوری طور پر بھی اخلاقیات سے عاری انداز تخاطب اختیار نہیں کر سکتا تھا۔ طرززیست سے طرز تکلم تک وہ سراپہ خوش سیلقگی کے اس قدر قائل تھے کہ اکثر کہا کرتے؛
سلیقہ مے کشی کا ہو تو کر لیتی ہے محفل میں
نگاہِ مست ِ ساقی مُفلسی کا اعتبار اب بھی
نواب صاحب کی سیاست کی بنیاد نظریہ اور جمہوریت تھی، قادری صاحب عطیے اور ضرورت کے قائل ہیں۔ نواب صاحب بادشاہ گر تھے اور قادری صاحب آلہ کار۔ نواب صاحب پاکستانی سیاست کی ساکھ کی علامت تھے اور قادری صاحب آمروں کی بیساکھی۔ نواب صاحب اصولوں پر سودا نہیں کرتے تھے اور قادری صاحب تضادات کو مصلحت اندیشی سے تعبیر کر کے شکست خوردہ ہو کر بھی یہ کہہ کر دھرنے سے اٹھ جاتے ہیں کہ ’’انقلاب آ گیا‘‘ (یہ الگ بات کہ انقلاب کو خوش آمدید کہنے سے پہلے ہی وہ کینیڈا پدھار جاتے ہیں)۔ نواب صاحب اس دھرتی کے بیٹے تھے اور ایک خالص محب ِوطن ہونے کے ناطے ہمیشہ اس کے ہو کر رہے جبکہ قادری صاحب (معاف کیجیے گا) چائینیزمصنوعات کی طرح ڈسپوزبل(Disposable)؛استعمال کیا اور جب چاہا ریسائکل(Recycle) کر کے کسی اور روپ میں ڈھال لیا۔ خدا نواب صاحب کی روح کو فرحت و مسرت دے اور قادری صاحب کو ہدایت، رہی بات ذرداری صاحب کی تو انھیں اللہ پوچھے!

ای پیپر دی نیشن