قارئین آج کا انسان اپنی تیز رفتار زندگی میں اس حد تک مصروف ہے کہ اس نے کبھی لمحہ بھر کیلئے رک کر یہ نہیں سوچا کہ اسکی زندگی میں الفاظ کی کیا اہمیت ہے؟ الفاظ جو بظاہر معمولی ہوتے ہیں، چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں، غیر اہم ہوتے ہیں بلکہ بعض اوفات بے معنی بھی ہوتے ہیں لیکن اگر غور کریں تو دراصل ہماری پوزی زندگی ہی انہی الفاظ کے اردگرد گھومتی ہے بلکہ یہ تمام کائنات بھی بجائے خود ایک لفظ ’’کُن‘‘ ہی کی وجہ سے وجود میں آئی اور جس کی بساط بھی قیادمت کے روز محض ایک لفظ ’’مُکن‘‘ کہہ کر لپیٹ سمیٹ دی جائیگی!دوسری بڑی مثال ہماری پاک الہامی کتاب کی ہے جو کہ جامع ترین الفاظ میں ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے نبی کریمؐ جو اوصاف حمیدہ کا اکمل نمونہ تھے اور جن کی محض پیروی ہی آخرت میں ہماری نجات کا ذریعہ بن سکتی تھی ان کو بھی انسانیت کی ہدایت کیلئے پاک الفاظ کا سہارا لینا پڑا۔ انتہا یہ کہ خود اللہ تعالی کو اپنے محبوب سے گفتگو کیلئے نزول قرآن کی ضرورت پیش آئی۔ قارئین دیکھا جائے تو حیوان اور انسان میں بنیادی فرق نطق کا ہے شعور کا مرحلہ بعد میں آتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں، میں سمجھتی ہوں آج کی ترقی یافتہ ترین دنیا زبان سے محروم جانوروں کی طرح وحشی دنیا کی نسبت کہیں زیادہ ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ جانوروں کی نطق سے محرومی ان کیلئے نعمت سے کم نہیں ہے جبکہ یہی نعمت انسانوں کیلئے قیامت کا دوسرا نام ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا کی تمام جنگیں، نفسیاتی پیچیدگیاں، ذہنی بیماریاں، انتشار، دکھ، آنسو، آہیں، کہانیاں اور حقائق سب کچھ انہی بظاہر بے جان الفاظ کا جاندار ترین ردعمل ہیں! ہم بغیر کسی احتیاط کے اور قطعی طور پر یہ سوچے سمجھے بغیر کہ سننے والے پر اس کا کیا اثر بلکہ ردعمل ہو گا یا ہو سکتا ہے ہر روز بلکہ ہر لمحہ ایسے ایسے الفاظ بول جاتے ہیں جو مدمقابل کو بغیر کسی ہتھیار کے قتل کر سکتے ہیں یقین کیجئے یہ الفاظ… یہ بے جان نقطے، یہ لکیریں… ایٹم بم ہیں، تیر ہیں، تلوار ہیں، آگ ہیں، شعلے ہیں، ان ننھے منے الفاظ کی طاقت انسان وحیوان کی مجموعی جسمانی طاقت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ان میں پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دینے کی طاقت موجود ہے۔ یہ جو بجائے خود بظاہر طوفان نہیں ہوتے دراصل طوفان، بردوش ہوتے ہیں یہ طوفانوں کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ یہ انسان کو زندہ درگور کر سکتے ہیں جب کہ عین اگلے لمحے یہ آپ کو حیات نو بھی بخش سکتے ہیں۔ فتح سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کو زندگی کے کسی بھی محاذ پر شرمناک شکست دے سکتے ہیں۔ یہ بہت کچھ کر سکتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔
جس طرح دنیا میں ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ دو رخ ہوتے ہیں اس طرح یہ الفاظ بھی دو رخے ہوتے ہیں۔ افسوس کہ انسان انکے حیات بخش رخ یا پہلو سے تقریباً ناآشنا ہے اور اگر آشنا ہے بھی تو فطری طور پر شاید اس حد تک کمزور ہے کہ جان بوجھ کر اسے نظرانداز کرکے ایک گھٹیا خوشی محسوس کرتا ہے۔ انکے زہر سے خود بھی طبعی موت سے پہلے بار بار مرتا ہے اور دوسروں کو بھی مار ڈالتا ہے۔ چاند پر پہنچ جانے کے باوجود یہ انسانی شعورودانست کی انتہائی اور حتمی شکست ہے کہ وہ ابھی بھی اپنے قول و فعل کی خونریزی پر قابو نہیں پا سکا ہے، زبان و بیان کے حوالے سے ہر انسان مبینہ طور پر دوسرے کو قتل کرتا ہے لیکن چونکہ اپنے لئے قانون ایزدی کے حساب سے منکر ہے اور اپنا قانون خودبناتا ہے اس لئے ابھی تک سزا اور خون بہا سے بچا ہوا ہے۔ بہرحال قارئین حیرت ہے انسانی بدن کے ٹکڑے کر دینے والے قاتلوں کیلئے تو جگہ جگہ عدالتیں اور پھانسی گھاٹ بنے ہوئے ہیں لیکن ظاہری اور باہری طور پر خون نہ بانے والے لیکن روح و انا کے ٹکڑے پارچے کر دینے والوں کیلئے کوئی بھی قانون یا کوئی عدالت نہیں بنائی گئی ہے اور شاید اس لئے نہیں بنائی گئی کیونکہ اس جرم میں دنیا کا ہر انسان برابر کا شریک ہے اور ظاہر ہے جو جرم کا کائناتی سطح پر اس طرح تقسیم کر دیا جائے یا اس حد تک عام ہو جائے یاکر دیا جائے کہ اس کا جارحانہ پن ہی ختم ہو جائے تو اس کیلئے قانون کی کوئی شق کیسے وضع کی جا سکتی ہے یقیناً سب نے اپنے اپنے بچائو کی گنجائش رکھنی ہوتی ہے اور یاد رکھئے جہاں بھی کسی بھی معاملے میں گنجائش کی گنجائش رکھ لی جاتی ہے وہاں قانون بے بس ہو جاتا ہے اور جہاں قانون جیسی طاقت بے بس ہو جائے اور اسے اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر کام نہ کرنے دیا جائے تو معاشرے کے پاس فلاح کیلئے کچھ باقی نہیں بچ جاتا۔ حیرت ہے الفاظ کے ان گجھے ہوئے قاتلوں کو براہ راست کبھی کچھ نہیں کہا جاتا جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انکے الفاظ کے ردعمل کے طور پر پاگل ہو جانے والوں اور نفسیاتی مریضوں کیلئے پاگل خانے اور نفسیاتی امراض کے ہسپتال ضرور تعمیر کر لئے گئے ہیں۔ گویا جرائم کی جڑیں ختم کرنے کی بجائے ان کی شاخوں کے سرقلم کر دئیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف الفاظ کا حیات بخش پہلو یہ ہے کہ اگر یہ انگارے ہیں تو بیک وقت برف کی ڈلیاں بھی ہیں۔ دل آزار ہوں تو دل کے دورے کا سبب بن سکتے ہیں لیکن یہ دل کو ڈوبنے سے بچا بھی سکتے ہیں۔ اگر یہ جج کے منہ میں جا کر کسی بے گناہ کی پھانسی کا حکم بن جاتے ہیں تو کسی وکیل کے منہ سے نکلے ہوئے چند طاقتور دلائل اسے پھانسی کے پھندے سے نجات بھی دلا سکتے ہیں۔ ذرا سوچئے عشق و محبت کے جن دو میٹھے بولوں کا جادو کسی حقیر کو بے تاج شہنشاہ بنا سکتا ہے اس کی دکھی اور دردناک و محروم زندگی کا مرہم بن جاتا ہے تو اسی محبوبہ کی زبان سے نکلے ہوئے شدید نفرت و مایوسی کے نشتر جیسے چند الفاظ اسکی خودکشی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اسی طرح غور کیجئے نکاح کے محض تین الفاظ جہاں مشرق و مغرب کے دو مختلف مزاج کے دو انسانوں کو عمر بھر کیلئے شادی کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں وہاں انہی تین الفاظ پر مشتمل طلاق مدتوں کی رفاقت کو ختم کر کے کئی نسلوں کو تباہ بھی کر سکتی ہے۔ گویا طے یہ ہوا کہ اگر آپ الفاظ کے مفیداثرات سے آشنا ہیں تو آپ زندگی کے بہترین سیاستدان ہیں بلکہ ملک و وطن کے بھی کامیاب حاکم ہیں لیکن اگر آپ کو عمدہ اور مؤثر الفاظ کی ادائیگی میں کمال حاصل نہیں ہے۔ آپ وقت اور موقعہ کی مناسبت سے بات نہیں کر سکتے تو محض چند الفاظ کا غلط اور ضرر رساں استعمال آپ کو دین و دنیا کی دولت سے محروم کر کے درد درد کا محتاج بنا سکتا ہے۔ انسان کو غور یہ بھی کرنا چاہئے کہ اسکے پاس اگر نطق کی طاقت موجود ہے تو وہ اسے کیسے استعمال کرتا ہے یا کیسے استعمال کرنا چاہئے؟ کیا جج پر یہ لازم ہے کہ اس کے پاس چونکہ پھانسی کے اختیارات موجود ہیں تو وہ ہر مجرم کو بلاسوچے سمجھے دار پر کھینچ دے؟ شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے تو وہ جاو بے جا ہر روز ہر صبح اٹھ کر بیوی کو یہ سنوا دیا کرے کہ وہ اسے عنقریب طلاق دے دے گا۔؟
میں سمجھتی ہوں یہ لفظی قتل، قتل عمد سے بھی کہیں زیادہ درد ناک اور اذیت رساں ہوتے ہیں۔ آخر میں کہنا بلکہ سوچنا یہ ہے کہ اس ذہنی و نفسیاتی تباہی کی ذمہ داری کون قبول کریگا؟ آخر کون اخلاقی اعتبار سے اس دنیا کو آندھی، لولی اور بہری دنیا بنا رہا ہے؟ قدرتی آفات اور تقدیر کے صدمات کے علاوہ ایک دوسرے کی زبان بیان سے کچلی ہوئی دنیا کب سکون کا سانس لے گی؟ شائد تب جب اس کی زبان بند ہو جائے گی! یاد رکھئے ہمارے اعلیٰ مذہب کی بنیاد اعلیٰ اخلاق پر ہے اور اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اعمال اور نرم و ملائم الفاظ جن کا وزن کے ترازو میں سب سے زیادہ وزنی ہو گا اور ہمارے اعمال کے ترازو میں سب سے زیادہ وزنی ہو گا اور ہمارے اعمال تب ہی وزنی ہو سکتے ہیں جب ہماری زبان پاک اور الفاظ نرم ہوں گے۔