چند روز قبل میری نظر سے ایک تحریر گزری‘ جس نے میرے دل کو بہت متاثر کیا ۔ لکھا تھا ’’راستے پر کنکر پڑے ہوں تو اچھا جوتا پہن کر بھی بآسانی چلا جا سکتا ہے لیکن جوتے کے اندر ایک بھی کنکر موجود ہو تو اچھی سڑک پر بھی چلنا محال ہو جاتا ہے۔ ہم باہر کی مشکلات سے نہیں اپنے اندر کی کمزوریوں سے ہارتے ہیں۔‘‘مجھے اس تحریر کے میں دو بہترین پہلو نظر آئے۔ ایک پہلو یہ کہ جوتے میں موجود کنکر جو ہمارے اندر کی خامیوں کو اجاگر کرتا ہے ۔ انسان کے اندر کا موسم خراب تو تو باہر کا خوشگور موسم بھی ہمیں اداس کئے رکھتا ہے جبکہ تحریر کا دوسرا پہلو یہ کہ جب ہمارے اندر کی کمزوریوں اور رازوں کی کنکریاں دوسروں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں تو وہ ابابیل بن کر وقتاً فوقتاً ہمارے وجود کو زخمی کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اندر کی بزدلی‘ سستی‘ کاہلی اور ناکارہ پن جیسے بھی زندگی میں آنیوالے مواقع سے ہمیں فائدہ اٹھانے نہیں دیتے۔ بدقسمتی سے اگر یہ کنکر ہمارے اپنے گھروں میں موجود ہوں تو اپنوں کی صورت میں اور بھی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ ہماری کامیابیوں پر حسد کرتے ہیں‘ ہمیں نیا قدم اٹھانے پر حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے کامیابی کی طرف اٹھنے والے قدم بوجھل ہو جاتے ہیں۔ایسے کئی کنکرہمارے معاشرے میں موجود ہیں جنہوں نے معاشرے کو ناسور بنا کر رکھ دیا ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا سرکاری‘ اقتصادی ترقی ہو یا معاشی‘ کالی بھیڑوں کی شکل میں یہ کنکر ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہم انہیں مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جو 70 سال پہلے تھے۔ آج کے ماڈرن دور میں بھی اسی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ کرپشن کیخلاف اٹھنے والی آواز کیخلاف ایک محاذ شروع کردیا جاتا ہے جس کی مثال آج ہمارے انصاف کے اداروں کی صورت میں نظر آتی ہے۔ کوئی اپنے حق کیلئے نہیں لڑ سکتا۔ ہم اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر تو شدومد سے لگاتے ہیںلیکن اپنے اندر کی کمزوریوں کے ہاتھوں ہارنے پر غور نہیں کرتے۔یہ کمزوریاں چاہے حالات کی وجہ سے ہوں یا ہماری اپنی کوتاہیوں کے باعث‘ اندر سے کھوکھلا کردیتی ہیں جس کی وجہ سے ہم کسی بھی محاذ پر لڑنے کے قابل نہیں رہتے۔ آج ہمارا معاشرہ ایسے ہی کھوکھلے پن کا شکار ہے۔ اگر ہم اپنے اندر کے ان کنکروں کو نکال پھینکیں‘ جو لمحہ لمحہ ہمارے وجود کو زخمی کرتے رہتے ہیں‘ تو یقیناً ہمارا یہ اقدام خوشحالی کی ضمانت بن سکتا ہے بلکہ ترقی کی اس سڑک پر اگر ہم ننگے پائوں بھی چلیں گے راستہ دشوار نہ ہوگا۔ (ان شاء اللہ) (لاریب طارق۔ لاہور)