آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے!

سمجھ میں نہیں آتا کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ قصور کا المناک واقعہ گو پہلی مرتبہ نہیں ہوا لیکن اس نے سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ روح پر گہرے زخم لگائے ہیں۔ پوری قوم حالت سوگ میں ہے۔ اس قسم کے واقعات سرگودھا اور دیگر شہروں میں بھی ہوئے ہیں۔ صرف قصور میں ایک تسلسل کے ساتھ کم و بیش بارہ واقعات ہوئے لیکن وہ اس کے نیچے دب سے گئے ہیں۔ ایک مذہبی گھرانے کی معصوم بچی‘ والدین عمرے پر گئے ہوئے۔ سات سال کی بچی قرآن شریف پڑھنے گھر سے باہر نکلتی ہے اور اغوا ہو جاتی ہے۔ کیمرے کی آنکھ اسے اغوا کار کے ساتھ جاتے ہوئے دکھاتی ہے۔ چند دن بعد اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر پائی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سب بچیاں ایک ہی شخص کی ہوس کا نشانہ بنی ہیں۔ سیریل کلر۔ اگر پہلے قتل TRACE ہو جاتے تو یہ حادثہ رونما نہ ہوتا۔ پولیس کی نااہلی‘ انتظامیہ کا روایتی تساہل اور تغافل‘ گنتی کے چند کیمرے بھی لگائے تو ناقص کارکردگی والے۔ یہاں بھی غالباً کمشن کام کر گئی۔ بچی بڑے سکون کے ساتھ قاتل کی انگلی پکڑے چل رہی ہے۔ اس سیاہ کار کے قدموں میں کوئی لڑکھڑاہٹ نہیں ہے۔ اس بات کا خوف نہیں ہے کہ علاقے کے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اسے غالباً اس بات کا علم بھی ہے کہ والدین وطن سے دور ہیں۔ مخصوص قد و کاٹھ‘ عمر کا تعین بھی آسانی سے ہو سکتا ہے۔ مقامی رہائشی ہے۔ باہر سے آیا ہوا شخص اس قدر معلومات حاصل نہیں کر سکتا۔ BY PROCESS OF ELIMINATION پولیس کو اب تک واردات کی تہہ تک پہنچ جانا چاہئے تھا۔ جلد یا بدیر پہنچ بھی جائے گی۔ البتہ پولیس کے ضلعی سربراہ جسے اب ڈی پی او کہا جاتا ہے اس کی کارکردگی محل نظر ہے۔ نعش برآمد ہونے پر بچی کے سوگوار چچا کو مشورہ دیتا ہے کہ اس کے کانسٹیبل کو دس ہزار روپے انعام دیا جائے۔ یہ درست کہا گیا ہے کہ صوبے میں بیشتر تعیناتیاں سفارش کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ 

ایک اور آفیسر کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ اس نے 27 کنوں کی پیٹیاں لاہور بھجوائیں۔ ایک والد کے لئے‘ دوسری سسر کے لئے اور پچیس ’’چھوٹے شہزادے‘‘ کے حضور میں پیش کیں۔ یہ لوگ حاکموں کو ملجا و ماویٰ سمجھتے ہیں۔ انہیں کون ہاتھ لگا سکتا ہے؟ اخباری خبر ہے کہ ڈی پی او قصور کو معطل کر دیا گیا ہے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ صوبائی حکومت کسی مرکزی ملازم کو معطل نہیں کر سکتی۔ یہ ڈرامہ ایک طویل عرصے سے کھیلا جا رہا ہے۔
دراصل ان لوگوں کو او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے۔ جب عوامی غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور واقعہ وقت کی راکھ تلے دب جاتا ہے تو اس سے بہتر پوسٹ پر تعیناتی ہو جاتی ہے۔ پچھلے چند سالوں کے ریکارڈ کو کھنگالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی۔
خادم اعلیٰ نے آئی جی کو ہدایت کی ہے کہ وہ قصور میں کیمپ لگائیں اور جب تک ملزم گرفتار نہ ہو جائے وہیں براجمان ہوں۔ آئی جی پنجاب کا تعلق پاکستان آرمی سے رہا ہے۔ یہ کچھ عرصہ پہلے ہی تعینات ہوئے ہیں۔ نہایت باصلاحیت ہیں۔ محنتی‘ دیانت دار‘ میرے ساتھ انہوں نے گوجرانوالہ میں 1993ء میں کام کیا ہے۔ امید ہے وہ جلد ہی اصل ملزم کو پکڑ کر کیفرکردار تک پہنچا دیں گے۔ لیکن اس سے مسئلے کی گھمبیرتا کم نہیں ہوتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ خادم پنجاب خود وہاں کیمپ لگاتے جس طرح انہوں نے لوڈشیڈنگ کے دنوں میں مینار پاکستان پر لگایا تھا۔ مخالفین نے طنز کیا ہے کہ یہ رات کے وقت چھپ کر مظلوم خاندان کے گھر گئے ہیں۔ ایک اعتبار سے یہ درست فیصلہ تھا۔ اگر دن کو جاتے تو مشتعل ہجوم نے ان کی شان میں ’’گستاخی‘‘ کرنا تھی۔ اس صورت میں ایک اور ماڈل ٹاؤن کا واقعہ رونما ہو جاتا۔
ماڈل ٹاؤن سے ہمیں مولانا قادری کا دھرنا/ احتجاج یاد آیا ہے جو 17 جنوری کو مال روڈ پر ہوا۔ تمام بڑی پارٹیاں مولانا کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔ ان کے پہلے دو دھرنے ناکام ہو چکے ہیں۔ دھمکیاں کھوکھلی ثابت ہوئی ہیں۔ حکومت تو ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ یہ بصد حسرت و یاس کینیڈا چلے جاتے ہیں۔ بالفرض بحث کی خاطر میاں صاحب اور رانا استعفیٰ دے بھی دیں تو ان کے خلاف جرم کیسے ثابت ہو گا؟ حکومت تو لیگ کی ہی ہو گی۔ کون تفتیش کرے گا۔ کس نے گواہی دینی ہے کہ ہر دو اصحاب نے گولی چلانے کا براہ راست حکم دیا تھا؟ ہر جرم ثابت کرنے کے لئے مؤثر شہادت درکار ہوتی ہے جو اکثر دستیاب نہیں ہوتی۔ کیا مولانا صاحب کو ایک اور ضیاء الحق کا انتظار ہے؟ احتجاج ہوا اور ختم ہو گیا۔ یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔ بدقسمتی سے حقیقت یہی ہے اگر مولانا سیالوی بھی بیک وقت باہر نکلتے تو حکومت کو مشکلات پیش آ سکتی تھیں۔ انہوں نے عین وقت پر اسے مؤخر کر دیا۔ رانا صاحب نے کہا تھا‘ کمرے کے اندر ٹکٹ مانگتے ہیں اور باہر استعفیٰ۔ علامہ اقبال نے پیرانِ حرم کے متعلق جو کہا تھا وہ اب سمجھ میں آ رہا ہے۔ بالفرض رانا صاحب حکومت سے الگ ہو بھی جائیں تو کیا فرق پڑے گا؟
پچھلی مرتبہ یہ ’’جاکر‘‘ بھی نہیں گئے تھے۔ وہی وسیع و عریض سرکاری کوٹھی‘ وہی محاوراتی بیس ڈانگ لمبی کار۔ سرکار کی آنکھ کا تارا‘ راج دلارا۔ صدر ہر جا کہ نشیند صدر است! ویسے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی۔ روہتک اور حصار کے باسی ہاتھ میں تلوار تو پکڑ سکتے ہیں‘ فلسفیانہ گفتگو نہیں کرتے۔ بے تکی باتوں سے کیا حاصل ہو سکتا ہے؟ عاقل را اشارہ کافی است۔
جس دن میاں نوازشریف نے کوئٹہ کے جلسہ میں اچکزئی کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا کہ ان کے خیالات خان بابا سے ملتے ہیں۔ اہل نظر نے جان لیا تھا کہ بلوچستان میں برائے نام ن لیگی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ وہ جو ایک بھرم کسی طور قائم تھا‘ جاتا رہا ہے۔ پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی ہے۔ سینٹ میں اکثریت لینے کا خیال ایک خواب نظر آنے لگا ہے۔ گو حکومت (ق) لیگ کے بزنجو نے بنائی ہے مگر پارٹی سربراہ چودھری شجاعت ہر کسی سے پوچھ رہے ہیں کہ انہیں ’’دھکا کس نے مارا ہے؟‘‘ الیکشن کے وقت ہر چہ بادا باد ہو گا۔ سینیٹر وہی بنے گا جس کی جیب میں زرکثیر ہو گا۔ پیسہ خرچ کرنے والے کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ وصولی کس طرح کرنی ہے۔ پنجاب میں بھی کافی حد تک صورتحال مختلف نہیں ہو گی۔ بہت سے آزاد امیدوار جیت جائیں گے۔ پارٹی ڈسپلن نہ ہونے کے برابر ہو گا کیونکہ صوبے کا تھانیدار سامان سفر باندھ رہا ہو گا۔
میاں نواز شریف جس قسم کے بیانات داغ رہے ہیں اور جس ذہنی دباؤ کا شکار ہیں وہ ملک و قوم اور خود ان کے لئے سودمند نہیں ہے۔ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے ایک انا پرست ارب پتی شخص کا اچانک اقتدار سے محروم ہونے پر ردعمل تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ انہوں نے ہر سرخ لکیر عبور کر لی ہے۔ کہتے ہیں مجیب الرحمن ایک محب وطن شخص تھا‘ اسے باغی بننے پر مجبور کیا گیا۔ نتیجتاً ملک دولخت ہو گیا۔ انہیں بھی اسی مقام پر لا کھڑا کیا گیا ہے۔ گویا یہ پنجاب کے مجیب الرحمن ہیں۔
لگتا ہے میاں صاحب نے اس کے چھ نکات کو غور سے نہیں پڑھا۔ ان پر عمل کرنے سے مشرقی حصے نے تو الگ ہونا ہی تھا۔ مغربی پاکستان کے چار صوبے بھی علیحدہ ہو جاتے‘ ہندوستان کے ساتھ اس کی ساز باز کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ اس بات کا انکشاف مودی نے خود ڈھاکہ میں برملا کیا ہے۔ ایک غدار کو محب وطن قرار دینا تاریخ سے تعصب برتنے کے مترادف ہے۔ کوئی بھی ذی شعور‘ محب وطن پاکستانی ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ اس قسم کے بیانات منزل قریب نہیں لاتے‘ مزید دور کر دیتے ہیں۔ یہی بیان اگر زرداری دیتا تو لیگیوں نے اس کا حشر نشر کر دینا تھا۔ عمران خان کے بخیے ادھڑ جاتے۔ اسفندیار ولی پر آئین کی ہر قابل ذکر دفعہ لگتی۔
ملک چاروں طرف سے دشمنوں میں گھر گیا ہے۔ گزشتہ 70 برسوں میں کسی امریکی صدر نے ایسی زبان استعمال نہیں کی جو ٹرمپ نے کی ہے۔ ہندوستان نے اس کی شہ پر جو لب و لہجہ اختیار کر رکھا ہے وہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔ معیشت کی زبوں حالی پریشان کن ہے۔ روپیہ منہ کے بل گرا ہے اور مزید گرنے کے خدشات ہیں۔ حکومت ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ یہ کیسا ملک ہے جس کا وزیراعظم اپنے آپ کو وزیراعظم نہیں سمجھتا۔ ہز ماسٹر وائس!
قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا

ای پیپر دی نیشن