18کی دلہن بننے کو ہر کوئی تیار

(ن) لیگ کے دور اقتدار میں اسکے مخالفین نے پارلیمنٹ کو خوب نشانہ بنایا۔ پارلیمنٹ اراکین اسمبلی کا مجموعہ ہے ایک دوسرے کی مخالفت کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی پارلیمنٹ ایک ادارہ ہے جس کی آواز پر دنیا والے کان دھرتے ہیں۔ عمران خان کی زبان پھسلی اور کہہ دیا مجرم کو پارٹی صدر بنانے والی اسمبلی پر لعنت لیکن اگلے روز اخبارات نے شہ سرخیاں لگا دیں۔ ’’پارلیمنٹ پر لعنت‘‘ عمران خان کوئی فرشتہ نہیں نہ ہی فرشتہ صفت انسان ہیں بشر ہیں اور خطا کا پتلا ہیں ان کی شخصی خامی یہ ہے کہ اکثر و بیشتر غیرمحتاط زبان استعمال کرتے ہیں مجرم کو پارٹی صدر بنانے والی اسمبلی پر لعنت کی بجائے وہ یہ کہتے تو قابل مذمت اور قابل گرفت بات نہ سمجھی جاتی کہ مجرم کو پارٹی صدر بنانے والے اراکین اسمبلی کی عقل پر رونا آتا ہے وہ خود اسی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جس پر لعنت بھیج رہے ہیں انہیں اسی پارلیمنٹ نے لعنت کا جواب دے دیا اسی پارلیمنٹ میں عمران پر خوب لعن طعن ہوئی۔ لعنت کا لفظ تو رب العالمین نے کافروں‘ مشرکوں فاسقوں ظالموں اور جھوٹوں کے لئے استعمال کیا ہے کیا پاکستان کے 22کروڑ عوام نے اپنی نمائندگی کے لئے کافروں مشرکوں‘ منافقوں‘ جھوٹوں اور ظالموں کو منتخب کیا ہے۔

عمران خان کے اردگرد لوگوں کی بھی سمجھ نہیں آتی جو انہیں تنہائی میں نہیں سمجھاتے کہ خان صاحب زبان اور لہجے کو بدل لیں لوگ ہی نہیں مخالفین بھی گرویدہ ہو جائیں گے۔ اسی طرح شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری کے بارے میں اہل دانش کہتے ہیں کہ مولانا اپنی زندگی صرف اور صرف دین کے لئے وقف رکھتے ‘ سیاست کی دلدل میں قدم نہ رکھتے اقتدار کی سیاست سے بے نیاز رہتے تو یہی سیاستدان ان کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھتے اور شاید ان کا مقام ایران کے روحانی پیشوا علی خامنہ ای جیسا ہوتا اور یہ بھی ممکن تھا کہ خود شریف برادران انہیں صدر مملکت کی کرسی پر بٹھا دیتے۔ حلم اور بردباری والی شخصیت دیکھنے کو نہ ملی سابق صدر غلام اسحاق خان مرحوم جیسی سنجیدہ شخصیت بھی ملک کو دوبارہ نصیب نہیں ہوئی۔
میری اہلیہ حافظہ قاریہ روبینہ کی وفات پر ایٹمی پروگرام سے وابستہ سابق ڈائریکٹر جنرل کے آر ایل ڈاکٹر انجینئر محمد فاروق صاحب ہلال امتیاز‘ ستارہ امتیاز‘ جوہری تمغہ بقاء نے میرے نام اپنے تعزیت نامے میں ایک واقعہ بیان کیا کہ ’’مجھے ایک مرتبہ صدر پاکستان جناب غلام اسحاق خان سے اکیلے میں ملنے کا اتفاق ہوا تو میں نے پوچھا کہ آپ گورنمنٹ سٹیٹ بینک آف پاکستان‘ چیئرمین واپڈا‘ سیکرٹری خزانہ‘ سیکرٹری دفاع‘ چیئرمین سینٹ وغیرہ رہے‘ یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ تحصیل دار سے صدر پاکستان بھی بنے جس پر وہ فرمانے لگے کہ ’’ ن کی زندگی میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس دن میں نے کتاب مقدس سے چند آیات تلاوت نہ کی ہوں‘‘ بات عمران خان کی ہو رہی تھی جس کے بارے میں اسی ایوان میں کہا گیا ’’بازاری بے شرم‘ جس تھالی میں کھاتے اسی میں چھید کرتے‘ لعنت بھیجنے والے کے منہ میں خاک‘‘ پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کرنے والے عمران خان نے وہاں سے 25 لاکھ روپے تنخواہ لی۔ اسی اسمبلی نے عمران اور شیخ رشید کی لعنت پر مذمتی قرارداد منظور کی۔ اسکے بعد عمران خان اورشیخ رشید استعفے کا شوشہ چھوڑ کر دبئی چلے گئے اور اب تو سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ’’کوئی کچھ کہے پارلیمنٹ سپریم ہے گویا سپریم کورٹ سے بھی سپریم پارلیمنٹ ہے۔ اسکے بعد پارلیمنٹ کے بالادست ادارہ ہونے میں کیا شک باقی جاتا ہے۔
مال روڈ پر اپوزیشن کے جلسہ میں قادری‘ عمران اور زرداری کو اکٹھا بٹھانے میں ناکام ضرور ہوئے لیکن دونوں کی ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی بند کرنے میں کامیاب ضرور ہوئے۔ عمران خان کی لعنت کے بعد کیا اب تحریک انصاف کے باقی ارکان اسمبلی بھی رکنیت پر لعنت بھیجیں گے اس میں شک نہیںکہ اپوزیشن حکومت کے خلاف متحد ہو چکی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف مستعفی ہوں لیکن لاہور کے جلسے میں مستقبل کے لئے کسی واضح لائحہ عمل کا اعلان نہ کیا جا سکا۔ عوام کے مسائل کی جانب کسی کی توجہ نہیں۔
اس میں شک نہیں جب تک اقتدار خاندانوں کے گرد گھومتا رہے گا عدل و انصاف کا نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ نوازشریف کی شدت بیان میں کمی نہیں آئی انہوں نے ہری پور کے جلسہ کو ریفرنڈم قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ججوں کو نااہلی کا فیصلہ واپس لینا ہو گا۔ عدلیہ کی تاریخ میں فیصلوں پر نظرثانی کی نظیر تو ملتی ہے لیکن واپس لینے کی مثال موجود نہیں۔ میاں صاحب شدت جذبات میں وہ باتیں نہ کہیں جو بالعموم ناپختہ کار سیاستدان کہہ جاتے ہیں میاں صاحب بلامبالغہ دورحاضر میں ایک مقبول قومی رہنما ہیں چند روز پہلے انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کا ذکر کے خود پر تنقید کے تیر چلوائے تھے۔ وہ خود کو ایک نظریہ قرار دے چکے ہیں جس طرح آئن سٹائن کا نام انکے نظرئیے کی وجہ سے امر ہے اسی طرح نواز شریف کا نام بھی ابدالآباد زندہ رہنا چاہئے۔ عوام میں مقبولیت اورمینڈیٹ انہیں چوتھی بار بھی وزیراعظم بنا سکتا ہے‘ سیاست میں مقبولیت کے سمندر کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ بھٹو کسی کھمبے کو ووٹ دینے کا کہہ دیتا تو ووٹر اسی پر مہر لگا دیتے۔ جو سیاستدان عوام کو واقعی طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں تو انہیں عدالتی فیصلوں سے ہونے والے رنج و ملال کو عوامی اجتماعات میں باربار نہیں دہرانا چاہئے انہیں شکر کرنا چاہئے کہ ان کی پارٹی ان کی قیادت میں پہلے سے زیادہ متحد ہے۔
1971ء اور آج کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے اب کسی شیخ مجیب کی گنجائش نہیں۔ بھٹو اور مجیب دونوں کو بھاری مینڈیٹ ملا تھا شیخ مجیب الرحمن کی حب الوطنی پر سوالات اٹھے تھے لیکن میاں صاحب کی حب الوطنی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ مجیب کے خلاف اگرتلہ سازش کیس اور اسکے 6نکات سب کو یاد ہیں مجیب اس وقت کے پورے پاکستان کے لئے تو غدار ہو سکتا ہے لیکن بنگالی قوم کے لئے محب وطن ضرور تھا اگر بھٹو مجیب دونوں محب وطن تھے تو پھر غدار کون ٹھہرا؟ میاں نوازشریف نے پانچ آرمی چیفس کی تقرری کی وہ سارے چیفس ان کے نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان اور آئین پاکستان کے وفادار تھے وفاداری ریاست سے ہوتی ہے شخصیات سے نہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے اس عہد کو دہرایا ہے کہ جج جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے لہٰذا نوازشریف صاحب کی ججوں کے ہاتھوں نااہلی جمہوریت کی پامالی ہرگز نہیں الیکشن کی تیاریاں جاری ہیں زرداری خیبر پختونخوا میں عمران خان کو ٹف ٹائم دینے کے لئے متحرک ہو گئے ہیں اس مشن کی ذمہ داری قیوم سومرو کو سونپی گئی ہے۔ بلوچستان میں تبدیلی کا مشن بھی قیوم سومرو نے انجام دیا تھا۔
فی الوقت سینٹ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے جسے آصف زرداری برقرار رکھنا چاہتے ہیں اگر بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت برقرار رہتی تو سینٹ میں بھی اسے اکثریت حاصل ہو جاتی جس کے بعد ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ والا مسئلہ بھی حل ہو جاتا۔ زرداری اور مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان کی وکٹ گرانے کے لئے یکجا دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان میں سیاسی حکمت عملی کا فقدان ہے۔ عمران کرکٹ کے کھلاڑی جبکہ زرداری سیاست کا کھلاڑی نہیں بلکہ چیمپئن ہیں‘ سیاست میں ہر بات برسرعام زبان پر لانے والی نہیں ہوتی زبان کے غیرمحتاط استعمال سے عمران خان کا گراف درجہ حرارت کی طرح اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔
سراج الحق مولانا فضل الرحمن ایک ہو گئے تو عمران کے پی کے میں ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ عمران خان کی اناپرستی انہیں اپنے ہدف تک پہنچنے نہیں دے رہی۔ مال روڈ پر زرداری عمران ہاتھ اونچے کر لیتے تو پھر اُمید سامنے آ سکتی تھی۔ عمران کو ڈیزل‘ شوباز‘ اور ڈاکو کے الفاظ والی لغت دریا میں پھینکنا ہو گی۔ کامیاب سیاستدان وہ ہے جس کے ہمنوائوں کی تعداد بڑھتی اور دشنام طرازی کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جائے۔
کامیاب قوال وہ ہے جس کے ہم نوائوں کی سُر اس کی سُر کا ساتھ دے۔ عوام کے کانوں میں اتنی بولیاں پڑ رہی ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ وزارت عظمیٰ وہ حسینہ ہے جس کے رشتے کے لئے ہر کوئی ہاتھ پائوں مار رہا ہے لیکن رشتے آسمان پر لکھے ہوتے ہیں 2018ء کی دلہن وہی بنے گی جسے پیا چاہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن