18 کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزیوں سے بڑھنے والے جنگ کے خطرات پر بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کی تشویش
پاکستان کے احتجاج اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ میں باربار طلبی کے باوجود بھارت کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزیوں سے باز نہیں آیا اور بھارتی سکیورٹی فورسز نے سیزفائر لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گزشتہ ایک ہفتے سے کنٹرول لائن کے پار پاکستان کی جانب گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ مسلسل برقرار رکھا ہوا ہے جس کے باعث اب تک دس بے گناہ شہری اور سکیورٹی اہلکار شہید اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ گزشتہ روز بھی بھارتی سکیورٹی فورسز نے کھوئی رٹہ‘ بجوات‘ باجڑہ گڑھی اور ہرپال سیکٹروں کے سرحدی دیہات پر شدید فائرنگ اور گولہ باری کی جس سے چار خواتین سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے جبکہ بھارتی بم گرنے سے ہونیوالے زوردار دھماکہ کے باعث ایک 28 سالہ خاتون ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ بھارتی فورسز نے سرحدی گائوں کینٹھی‘ ٹائیں‘ بھینسا گالہ‘ موہڑہ اور چتر پر گولہ باری کرتے ہوئے سول آبادی کو نشانہ بنایا۔ پاک فوج نے بزدل دشمن کیخلاف بھرپور کارروائی کی اور اسکی گنوں کو خاموش کرادیا۔ اس بھارتی اشتعال انگیزی پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو گزشتہ ایک ہفتے میں پانچویں بار دفتر خارجہ طلب کرکے بھارت کی جانب سے سیزفائر کی خلاف ورزیوں پر سخت احتجاج کیا گیا اور انہیں دیئے گئے مراسلہ میں بھارتی حکومت سے جنگ بندی اور عالمی معاہدوں کی پابندی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ دوسری جانب بھارتی جنونی وزیراعظم نریندر مودی نے پینترا بدلتے ہوئے پاکستان کے ساتھ امن کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت نے بہت لڑلیا‘ آئو اب مل کر غربت اور بیماری کیخلاف لڑیں۔ گزشتہ روز ایک بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو تنہاء کرنے کیلئے کام نہیں کررہے بلکہ ہم دہشت گردی کیخلاف دنیا کو متحد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
بھارتی فوج کنٹرول لائن کے پار جس وحشیانہ انداز میں سول آبادیوں پر فائرنگ اور گولہ باری کررہی ہے اور اس سلسلہ میں پاکستان کے باربار کے احتجاج کو بھی درخوراعتناء نہیں سمجھا جارہا اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے اس پر جارحیت مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے تسلسل کے ساتھ بھارتی فوجوں کی گولہ باری سے درحقیقت وہ پاکستان کو اشتعال دلا کر جارحیت کے ارتکاب کا کوئی جواز نکالنا چاہتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے بھارتی فائرنگ اور گولہ باری پر اسے مسکت جواب دیا جارہا ہے جس ے بھارتی فوجوں کو جانی نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے تاہم پاکستان بھارتی سازشوں کے جال میں آنے کے بجائے دانشمندی کے ساتھ صرف دفاعی جوابی کارروائی کررہا ہے مگر بھارت پر تو امریکہ اور اسرائیل کی معاونت سے حاصل ہونیوالی جنگی استعداد و طاقت کا نشہ طاری ہے چنانچہ وہ بدمست ہاتھی کی طرح چنگھاڑتا ہوا پاکستان کی جانب رخ کرتا نظر آتا ہے اس لئے بھارت کے جارحانہ عزائم کو روکنے کیلئے اب اس بزدل دشمن کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سبق سکھانا ضروری ہوگیا ہے۔ بھارتی عزائم کا اندازہ اسکے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی اس ہرزہ سرائی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی فوج پاکستان کے اندر گھس کر بھی کارروائی کرسکتی ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز لکھنؤ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ چند ماہ قبل پاکستان نے بھارت کے 17 فوجیوں کو ہلاک کیا تھا جس کے بعد وزیراعظم مودی نے اس سنگین مسئلہ پر تمام اعلیٰ حکام سے مشاورت کی۔ راجناتھ کے دعوے کے مطابق اس مشاورت کے بعد بھارتی فوج نے پاکستان میں داخل ہو کر وہاں عسکریت پسندوں کیخلاف کارروائی کی۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ کنٹرول لائن پر سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزی بھی مسلسل بھارت کی جانب سے کی جارہی ہے اور وہ بدمستی میں اپنا ڈرون بھی پاکستان کی فضائی حدود میں داخل کرچکا ہے جسے پاک فضائیہ کے مشاق طیارے نے اسی وقت مار گرایا‘ اسکے باوجود مودی سرکار پاکستان پر سیزفائر کی خلاف ورزیوں اور بھارت کی جانب سے فائرنگ کا الزام عائد کرکے اپنی جارحیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اور گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کے وزیر پارلیمانی امور نے پچھلے تین دنوںکے دوران کنٹرول لائن پر ہونیوالے جانی نقصانات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کئے گئے اس اعتراف کے تحت اس امر کی تصدیق کی ہے کہ فائرنگ میں پہل بھارت کی جانب سے کی جاتی ہے جس کا پاکستان کی جانب سے جواب دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بزرگ کشمیری حریت رہنماء سید علی گیلانی نے لائن آف کنٹرول پر جاری گولہ باری پر دونوں جانب ہونیوالے انسانی جانوں کے اتلاف پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک تنازعۂ کشمیر کو یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا جاتا‘ بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ کا خطرہ بدستور موجود رہے گا جبکہ دونوں ممالک کے ایٹمی پاور ہونے کے باعث یہ جنگ انتہائی تباہ کن اور خطرناک ثابت ہوگی۔
درحقیقت کشمیرہی پاکستان اور بھارت کے مابین گزشتہ سات دہائیوں سے جاری کشیدگی کی بنیاد ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر کا تنازعہ بھی بھارت نے خود کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دے کر اور اسکے غالب حصہ پر فوجی تسلط جما کر پیدا کیا ہے جبکہ اس تنازعہ کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کی راہ میں رکاوٹیں بھی خود بھارت پیدا کرتا ہے جس نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر اور مقبوضہ وادی میں کشمیری عوام کو انکی جدوجہد آزادی کے راستے سے ہٹانے کیلئے ان پر ظلم وجبر کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کرکے اس تنازعہ کو طول دیا جبکہ ہر سطح کے دوطرفہ مذاکرات کی میز بھی ہر بار بھارت کی جانب سے ہی رعونت کے ساتھ الٹائی جاتی ہے۔ یہ بھارتی طرزعمل تو مودی سرکار کی امن کی خواہش کی خود ہی نفی کرنے کے مترادف ہے جبکہ پاکستان نے تین بار بھارتی ننگی جارحیت برداشت کرنے اور اسکے ساتھ سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار ہونے کے باوجود علاقائی امن و استحکام کی خاطر بھارت کی جانب سے مذاکرات کی ہر پیشکش کا خندہ پیشانی سے خیرمقدم کیا اور اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود کہ بھارت محض عالمی دبائو ٹالنے کیلئے مخصوص حالات میں پاکستان سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے۔ پاکستان ہر عالمی اور علاقائی فورم پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر بھارت نے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے اپنی بدنیتی کی بنیاد پر گزشتہ سال اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس کی نوبت بھی نہیں آنے دی اور ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھی اپنی من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جبکہ پاکستان کے ساتھ پانی کے تنازعہ کو بھی بھارت ہی اپنی ہٹ دھرمی کے تحت سنگین بنا رہا ہے تواس فضا میں مودی کی امن کی خواہش کو کس کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے شروع دن سے ہی پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیا ہوتا اور کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق قبول کرلیا ہوتا تو پاکستان اور بھارت کے مابین کسی قسم کی کشیدگی اور کوئی تنازعہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ اس کا کشمیر پر تسلط جمانا درحقیقت اسکی جانب سے پاکستان کی خودمختاری تسلیم نہ کرنے کا ہی عندیہ تھا جس پر وہ ہنوز عمل پیرا ہے اور نہ صرف یہ کہ وہ کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی چھوڑنے پر آمادہ نہیں بلکہ وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان پر بھی نگاہِ بد جمائے بیٹھا ہے جس کیلئے اسکی ایجنسی ’’را‘‘ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی گھنائونی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اب ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں تو بھارت کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے ہیں اور وہ پاکستان پر نئی جنگ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف نظر آتا ہے۔ اس تناظر میں عالمی قیادتوں اور اداروں کو بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کی اس فکرمندی والی بات پر ضرور کان دھرنا چاہیے کہ دونوں ممالک کے ایٹمی پاور ہونے کے باعث انکے مابین جنگ انتہائی تباہ کن اور خطرناک ہوگی۔ اگر بھارتی فورسز نے کنٹرول لائن پر اسی طرح سیزفائر لائن کی خلاف ورزیوں اور سول آبادیوں پر یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ برقرار رکھا تو پاکستان کے پاس جنونی بھارت کے ہاتھ مروڑنے کے سوا اور کیا چارۂ کار رہ جائیگا۔ اسکے نتیجہ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے علاقائی اور عالمی تباہی کی نوبت آتی ہے تو اس کیلئے عالمی قیادتوں بطور خاص مودی سرکار کو تھپکی دینے والی ٹرمپ انتظامیہ کو فکرمند ہونا چاہیے۔ پاکستان کو اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے بہرصورت کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق حاصل ہے۔