شیریں نوا مہناز

Jan 23, 2018

شاہد لطیف

1968 اور 1969 کا زمانہ تھا راقِم ریڈیوپاکستان کراچی کے موسیقی کے پروگرام ’نئے فنکار ‘ میں تقریباََ ہر ہفتہ حصہ لیا کرتا تھا ؛ اور اِس طرح کئی نامور ہستیوں کی دعائیں لینے کا اعزاز حاصل ہو ا جیسے اختر وصی علی صاحب ۔یہ پاکستان منتقل ہونے سے پہلے آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے۔ کراچی آ کر دونوں میاں بیوی،اختر وصی علی صاحب اور کجّن بیگم محض سوز و سلام، مرثیہ اور نوحہ کے لئے مختص ہو کر رہ گئے۔ خاکسار کو یاد ہے کہ اُسی زمانے میں ریڈیو کے جیّد فنکار،موسیقار اور گلوکار ، کیا خواتین کیا حضرات کہا کرتے تھے کہ اختر صاحب نے صرف سوز و سلام، مرثیہ اور نوحے کے میدان کو منتخب کر کے ہم پر بہت احسان کیا ورنہ اتنے بڑے فنکار کی موجودگی میں ہم کہاں جاتے؟
گو1969 کے بعدمیرا ریڈیو پاکستان کراچی کم کم جانا رہا تاہم دہلی گھرانے کے اُستاد امرائو بندو خان صاحب اور اختر وصی علی صاحب کے ہاں آنا جانا لگا رہا۔ کجّن بیگم جب سوز و سلام پڑھا کرتی تھیںتو اُن کے ساتھ اُن کے دو بہنیں اور کچھ لڑکیاں بھی آیا کرتیں تھیں ۔70 کی دہائی کے اوائل میں ایک روز علم ہوا کہ اِن نامور میاں بیوی کی صاحبزادی نے ریڈیو کے بزمِ طلباء کے مقابلہء موسیقی میں ا تنا عمدہ نغمہ سُنایا کہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے پروڈیوسر جناب امیر امام نے اُس کو اپنے پروگرام’’ نغمہ زار ‘‘ میں شرکت کی دعوت دے دی جس کے موسیقار سُہیل رعنا تھے۔ واضح ہو کہ بزمِ طلباء کے پلیٹ فارم سے ہمارے ملک کو کئی ایک نامور فنکار مِلے ۔جیسے مشہور فِلمی شاعر یونس ہمدم صاحب۔
اختر وصی صاحب کی یہ ہونہار بیٹی مہنازتھی۔جِس کو ایک عرصہ اپنی والدہ اور خالائوں کے ہمراہ ریڈیو اور ٹیلی وژن میں سوز خوانی کرتے دیکھا تھا۔چونکہ اختر وصی صاحب کے ہاں اِس خاکسار کا آنا جانا تھا لہٰذا یہ سُن کر کوئی حیرت نہ ہوئی کیوں کہ میں ایک عرصے سے اِس کی محنت دیکھ رہا تھا۔مہناز کو ہمیشہ یہ بات یاد رہتی تھی کہ سب سے پہلے ریڈیو پاکستان کراچی کے سلیم گیلانی صاحب نے اُس کی حوصلہ افزائی کی اور پنڈت (موسیقی کے درجوں کے لحاظ سے اُستاد سے ایک بڑ ا درجہ) غلام قادر کے پاس مزید بہتر ہونے کے لئے بھیجا۔پنڈت صاحب مہدی حسن کے بڑے بھائی تھے۔
وقت گزرتا رہا ۔میں کالج سے جامعہ کراچی آ گیا۔پھر قسمت مجھے گراموفون کمپنی آف پاکستان میں صدابندی کا کام سیکھنے لے گئی اور یوں آہستہ آہستہ اہل فن اور صاحبِ قلم افراد سے وا سطہ پڑنے لگا ۔ کہاں سوز و سلام پڑھنے والی ایک گھریلو لڑکی اور کہاں ملک کی مشہور پلے بیک سنگر مہناز!۔ EMI میں فلم’’ آئینہ ‘‘ کے لانگ پلے ریکارڈ بن رہے تھے۔اور میں فخر سے چیف سائونڈ انجنئی عزیز صاحب اور فیکٹری منیجر جناب مُسلم عباسی سے کہا کرتا کہ یہ وہی مہناز ہے جو اپنی والدہ کے ساتھ سوز و سلام کی ریکارڈنگ کے لئے ریڈیو پاکستان کراچی آیا کرتی تھی۔ مذکورہ فلم 18مارچ1977کو نمائش کے لئے پیش ہوئی تھی۔
کچھ اور عرصہ بیت گیا ، میں افریقہ چلا گیا۔ پھر 1980میںقسمت مجھے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز لے آئی جہاں مجھے موسیقی کے پروگرام کرنے کو مِلے۔اُدہر مہناز کی شہرت دو چند ہو گئی۔ وہ اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی ظفر کے ساتھ لاہور میں ہوتی تھی جب کہ کراچی میں اُس کے والد اختر وصی علی صاحب ،ظفر سے بڑا بھائی شبّر اور دیگر افرادِ خانہ رہا کرتے تھے۔اختر صاحب بہت ہی دلچسپ شخصیت کے حامل تھے، اِس پر کسی اور وقت بات ہو گی۔بات مہناز کی ہو رہی ہے۔مہناز کِس معیار کی فنکارہ تھی یہ ثانوی بات ہے، اہم یہ ہے کہ عروج کے زمانے میں بھی میں نے اُس کو ویسے ہی پایا جیسے وہ 1970 کے زمانے میں تھی، سادا ، بے تکلف ، پُر خلُوص … بناوٹ، پھو ںپھاں کا شائبہ تک نہ تھا۔ اکثر کراچی آتی تھی۔ ایک دِن میں نے کہا :’’ میری خواہش ہے کہ تُم سلطانہ صدیقی صاحبہ اور میرے پروگرام ’ آواز و انداز‘ کے لئے ریکارڈنگ کرائو‘‘ ۔بیساختہ بولی ’’کب ہے؟ ‘‘ ۔میں نے کہا: ’’ تم کراچی میں کتنے دِن کے لئے ہو‘‘؟ جواب آیا: ’’ 4 دِن کے لئے‘‘۔ فوراََ موسیقار اختر اللہ دتہ اور شاعر محمد ناصر ؔ صاحبان سے رابطہ کیا۔یہ دونوں افراد تیز ترین کام کرتے رہے تھے۔قصّہ مختصر یہ کہ تین گیت اور ایک غزل تیار ہوئیں اور مہناز نے آڈیو اور اُس کے بعد وی۔ٹی۔آر بھی کروایا… صرف 4 دن میں ۔ ایک اور واقعہ یاد آیا : پروگرام ’ اُمنگ‘ کے لئے موسیقار کریم شہاب الدین اور شاعر شبیؔ فاروقی صاحبان کے گیت، ، صدر میں واقع مشکور صاحب کے شاداب اسٹوڈیو میں مہناز کی آواز میں ریکارڈ ہونا تھے ۔ اُس کو صبح ساڑھے نو بجے کا وقت دیا گیا۔ میری عادت تھی کہ آڈیو ریکاڑڈنگ کے لئے وقت سے پہلے آیا کرتا ۔اُس روز بھی پونے نو بجے پہنچا۔کیا دیکھتا ہوں کہ صفائی والا اسٹوڈیو میں صفائی کر رہا ہے اور مہناز باہر بیٹھی ہے۔ یہاں تو وقت پر بھی کوئی نہیں آتا کہاں یہ وقت سے پہلے !! یہ اُس کے عروج کا زمانہ تھا۔
اِسی ریکارڈنگ کی ایک اور یادگار بات یہ تھی کہ ا سٹوڈیو میں داخل ہوتے وقت اُس نے کلائی میں پہنی گھڑی اُتار کر پرس میں رکھ لی اور پوری ریکارڈنگ کے دوران کسی لنچ، چائے، پان کی فرمائش نہیں کی حالاں کہ اُس روز کسی وجہ سے ریکارڈنگ پھنس رہی تھی اور عام دورانیہ سے زیادہ وقت لگا۔جب سب گیت کریم بھائی نے او کے کر دیے تو مہناز نے مشکور صاحب کے بھانجے اور سائونڈ انجنئیر توصیف سے کہا کہ وہ سب او کے ٹیک سُن کر تسلی کر لے اگر ضرورت ہو تو دوبارہ ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے۔ مجھ سے رہا نہ گیا پوچھا کہ گھڑی کیوں اُتاری؟ ــ جواب ملاحظہ ہو: ’’ اسٹوڈیو میں گھڑی پر وقت دیکھنے کا مطلب ہے میرا ٹائم ختم اب میں نے جانا ہے‘‘۔پوچھا کہ چائے پانی بھی نہیں مانگا؟ جواب مِلا : ’’ اِس لئے کہ اِس سب میں اور وقت لگ جاتا ‘‘۔ پوچھا : ’’ فنکار تو اِس کا بھی انتظار نہیں کرتے کہ اُ ن کو او۔کے کہہ دیا جائے، اُن کو جانے کی پڑی ہوتی ہے۔جواب دیا: ’’ کسی نے وقت خریدا ہوا ہے ۔ابھی شفٹ باقی ہے، ممکن ہے کہ غور سے سننے پر میری جانب سے کوئی غلطی سامنے آ جائے۔میں ابھی ہوں لہٰذا میرا فرض ہے کہ اپنی بہترین صلاحیت کا مظاہرہ کر کے جائوں‘‘۔ہے کوئی آج مہناز جیسا؟
لوگوں نے مہناز کے گراموفون ریکارڈ، کیسٹ، سی ڈی اور ٹیلی وژن پر بہت گانے سُنے۔مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، بے خیالی میں اکثر گنگناتے سُنا۔ساز کے بغیر بھی آواز کی نغمگی متاثر کرتی تھی۔کیا مہناز تھی شیریں نوا !!! اللہ اُس کی مغفرت کرے۔
مہناز عام زندگی میں بے حد ملنسار ،سادا پُر خلوص تھی۔ مارچ 1999 میں جب وہ صدر فاروق خان لغاری سے اپنا تمغہء حسنِ کارکردگی لینے اِسلام آباد آئی تو میں نے اُسے اپنے غریب خانے میں قیام کی دعوت دی ۔ایک گیسٹ ہائوس میں سرکاری انتظام ہونے کے باوجود اُس نے میری دعوت قبول کر لی۔
اِسی تقریب میں مسرور بھائی المعروف مسرور انور صاحب کو بعد از مرگ یہی ایوارڈ دیا گیا جو اُن کی بیگم نے وصول کیا۔دیر آید درست آید، حکومتِ پاکستان کو 1971میں لکھے گئے قومی گیت: ؎
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد
پر ایوارڈ دینااُن کے دنیا سے گزر جانے پر یاد آیا۔بہرحال تقریب کے بعد میں خود اُسے اپنے گھر واقع لال کڑتی، راولپنڈی لے آیا ۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے ۔ ہم لوگ کچھ عرصہ پہلے ہی کراچی سے پنڈی منتقل ہوئے تھے۔ ہم بوری نشین قسم کے لوگ ہیں ۔مارچ کا مہینہ اور سردی کا زمانہ، قالین پر بستر لگا کر سوتے تھے اور مہناز کو بھی ہم نے ایسا ہی ایک بستر فراہم کیا۔اُس رات مہناز نے بغیر ساز کے اپنی سریلی آواز میں کئی گیت، ٹپے، حضرت امیر خسروؒ کے مشہور گیت سنا کر ایک سماں باندھ دیا۔مہناز کی خواہش پر ہم نے کسی کو بھی اِس کی آمد کا نہیں بتایا تھا۔سامعین میں خاکسار کے ساتھ میری بیوی اور بیٹیاں موجود تھیں۔ہمیں آج بھی وہ محفل اسی تازگی کے ساتھ یاد ہے۔اگلی صبح اُس نے بتایا کہ رات بہت پر سکون گزری۔اُس نے ایک دفعہ بھی ہماری کم مائیگی پر اشارتاََ تک کچھ نہ کہا ۔ سادے سے ناشتہ کے بعد میں خود اُسے ہوائی اڈہ چھوڑنے گیا۔سادے سوٹ کے اوپر سفید چادر اوڑھے، بغیر میک اَپ، ایک گھریلو خاتون کی طرح خوشی خوشی اُس نے ہم سب کو خدا حافظ کہا اور کراچی پرواز کر گئی۔
مہناز نے 1990تک 13 مرتبہ بہترین گلوکارہ کے نگار ایوارڈ حاصل کیے۔جو ہمارے ملک میں کسی بھی گلوکارہ کے حصہ میں نہیں آئے۔مزید برآں مہناز وہ واحد گلوکارہ ہے جِس نے مسلسل سات سال ہر سال بہترین گلوکارہ کا نگار ایوارڈ حاصل کیا:
نمبرشمار
فلم کا نام
فلم کے نمائش کا سال
1
سلاخیں
1977
2
پلے بوائے
1978
3
خوشبو
1979
4
بندش
1980
5
قربانی
1981
6
بیوی ہو تو ایسی
1982
7
کبھی الودع نہ کہنا
1983
2011 میں مہناز کو ،لکس اسٹائل ایوارڈز کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈدیا گیا۔پہلے ذ کر ہو چکا کہ مہناز نے اپنا فنی سفر70 کی دہائی سے شروع کیا۔اُس کی دو خصوصیات ، شیریں نوائی اور سُر پر قابو، نے لاہور کے موسیقاروں اور فلم بینوں کو جلد ہی اپنی جانب متوجہ کر لیا اور ابتدا ء میں ہی اُس کے نغمات نے مقبولیت حاصل کر لی۔
کچھ اپنا تجربہ بتاتا ہوں کہ میں نے اُسے ا وّل تا آخر ، گیت کی تیاری کے تمام مراحل میں کیسا پایا !! وہ بہت محنت اور سنجیدگی سے کام کرتی تھی۔البتہ کام کے بعد ہنسی مذاق ضرورہوتا تھا۔وہ صحیح معنوں میں فنکارہ تھی۔کبھی اُس کی جانب سے کوئی معمولی سی بھی غلطی ہو جائے تو خود ہی ریہرسل یا ریکارڈنگ روک دیا کرتی تھی۔قطع نظر اس کے کہ راقم اُس کو فلموں میں آنے سے پہلے ہی جانتا تھا، کوئی نیا شخص بھی سیکنڈوں میں اندازہ لگا لیا کرتا تھا کہ ـ’ ہاں یہ میٹھی آواز ہے‘۔آواز میٹھی ہے یا بس گزارہ ہے، یہ بعد کی بات ہے پہلے تو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آواز سُر میں بھی ہے؟ مہناز کے گلے میں تو ایسا لگتا تھا کہ آواز نہیں کوئی ساز ہے۔یعنی سُر میں پکا۔یہ چیز خوب ریاضت اور اُستاد کی نگرانی میں مشق کرنے سے ہی آ سکتی ہے ۔ اپنے عروج کے زمانے سے لے کر انتقال تک مہناز نہایت منکسر المزاج تھی۔ اِس چیز کی آج کے فنکار میں کمی ہے۔ریاضت بھی ہو گئی ا ستاد سے ضروری مشقیں بھی کر لیں اب اللہ کی دین میٹھی آواز بھی شامِل ہو گئی اِس طرح جب تمام ضروری عناصر ملے تو مہناز بنی۔ اِس درجے کی ُسُریلی آواز کم کم ہی سننے میں آتی ہے اور فی زمانہ تو کوئی بھی نہیں! اتنی صلاحیتوں کے باوجود خواہ صرف ایک ہی گیت کیوں نہ ہو اُس نے ہمیشہ ریہرسل کرنے کو فوقیت دی ۔ جب پوچھا جاتا تو کہتی کہ اِس سے نغمہ اور ردھم قابو میںآتے ہیں۔
اپنی والدہ اور والد صاحب سے موسیقی کے بنیادی رموز سیکھنے ، درجہ بدرجہ نیم کلاسیکی اور راگ راگنیوں سے واقفیت اور پھر اساتذہ سے تربیت لینا اور سوز و سلام، مرثیہ اور نوحے پڑھنایہ سب مہناز کے اُس وقت کام آیا جب وہ 1970اور1980کی ہیروئنوں کی پلے بیک سنگر بنی۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں موقع مِلا غزل کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔واضح ہو کہ اُس وقت مادام نور جہاں، اقبال بانو، اور فریدہ خانم کا طوطی بولتا تھا۔
مہناز کے شیریں نوا اور سریلی آواز ہونے کے علاوہ قسمت کی یاوری اور خوش نصیبی کا بھی دخل ہے ۔ 70 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان فلمی صنعت میں ایسی خواتین پلے بیک سنگر کی بہت کمی تھی جِن کی آواز بابرہ شریف، شبنم اور اُس وقت کی ہیروئنوں پر جچ سکے۔رونا لیلیٰ اسی زمانے میں بنگلہ دیش چلی گئی تھی، مالا کی بھی اب وہ پہلی سی آواز نہیں رہی تھی۔لے دے کے ایک مادام نورجہاں تھیں جو اُس وقت زیادہ تر پنجابی فلموں کی ہو کے رہ گئی تھیں۔ اِس خلا کو مہناز نے بڑی مہارت کے ساتھ پُر کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چار سال گزر گئے اور لاہور میںخواجہ خورشید انور، نثار بزمی،اے۔حمید، ماسٹر عنایت حسین،ماسٹر عبد اللہ،روبن گھوش ، ایم۔اشرف، کمال احمد اور دوسرے موسیقار مہناز کو سامنے رکھ کر دھنیں بنانے لگے اور چاروں طرف اُس کے گیت گونجنے لگے۔
مہناز کے چند مشہور گیت درجِ ذیل ہیں:
فلم
گیت کے بول
موسیقار
حیدر علی
کیوں روئے شہنائی
خواجہ خورشید انور
آئینہ (1977)
مجھے دل سے نہ بھلانا
روبن گھوش
بندش
دو پیاسے دل ایک ہوئے
روبن گھوش
پہچان (1975)
میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا
نثار بزمی
سلاخیں (1977)
تیرے میرے پیار کا ایسا ناتا ہے
کمال احمد
خوشبو (1979)
میں جس دن بھلا دوں تیرا پیار دل سے
ایم اشرف
مہناز کولائٹ کلاسیکل،ٹھمری، دادرا وغیرہ کا علم تھا۔ آواز میں لوچ اور مُرکیاں اور بول کے بنائو پر خاصا عبور حاصل تھا۔اِن کا امتزاج ہم کو فلم کے ساتھ ساتھ ٹیلی وژن اور ریڈیوکے خوبصورت گیتوںا ور غزلوں میں جا بجا محسوس ہوتا ہے ۔ فراز کی مشہور غزل اس کی بہترین مثال ہے:؎
اب کے تجدیدِ وفا کانہیں امکاں جاناں
اِس کو مشہور کرنے میں اِس غزل کے موسیقار جو غالباََ خلیل احمد ہیں،کے ساتھ ساتھ مہناز کا بھی کم ہاتھ نہیں۔
خواجہ خورشید انور مہناز کی آواز کی لوچ سے متاثر ہوئے اور 1978 میں بننے والی فلم ’’ حیدر علی ‘‘ میں مہناز سے ایک سے زیادہ گیت ریکارڈ کروائے۔ مہناز نے مہدی حسن صاحب کے ساتھ کئی ایک دوگانے صدابند کروائے۔اس کے علاوہ مادام نورجہاں اور ناہید اختر کے ساتھ بھی ۔شاید مہناز ہی نے ہماری فلموں میں سب سے زیادہ دوگانے ریکارڈ کروائے۔
مہناز کے بعض ناقدین اُسے ضرورت سے زیادہ مونہہ پھٹ اور صاف گو کہتے ہیں۔پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے لکھتا چلوں کہ مادام نورجہاں سے بڑھ کر مونہہ پھٹ کوئی اور نہ تھا۔ کیا مہناز مادام کے سامنے بھی مونہہ پھٹ تھی؟ میں نے یہ بات مہناز سے پوچھی تو اُس نے کہا: ’’ ہاں ! میں جو بات ہے، کہہ دیا کرتی ہوں ۔دل میں نہیں رکھتی مگر کبھی مادام نورجہاں سے میرا جھگڑا نہیں ہوا۔وہ میری اُستاد بھی تو ہیں ! میڈم کی ناک پر ہر وقت غصّہ تو نہیں بھرا رہتا تھا نا! بلکہ اِس کے بر عکس میرے میڈم سے بہت خوشگوار تعلقات رہے‘‘۔ ویسے یہ بات ایک حد تک ٹھیک ہے۔میں نے 80کی دہائی میں بزمی صاحب کے ساتھ خود مادام نورجہاں سے دو گھنٹے ملاقات کی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اب لئے دیے رہتی ہیں۔
مہناز 2000 میں اپنی والدہ کے انتقال کے بعد بجھ سی گئی۔ اُس میں اب یاسیت نظر آنے لگی۔ کراچی میں موسیقار اختر اللہ دتہ سے خاکسار کی اچھی سلام دعا ہے، اُسی زمانے میں ایک دن اُن کے اسٹوڈیو جانا ہوا تو انہوں نے اپنی موزوں کردہ دھنوں میں مہناز کی کچھ غزلیں، جیسے مرزا داغ دہلوی کا کلام، اور بعض ٹیلی وژن پروگراموں کے گیت سنوائے۔ہماری مہناز کے موضوع پر لمبی گفتگو ہوئی۔لگتا تھا کہ اب وہ ہماری فلمی صنعت سے مایوس ہو گئی تھی۔بعد کی ایک ملاقات میں مہناز نے مجھ سے کہا تھا کہ اب فلموں، فلمی موسیقی اور خود موسیقی کی ستائش کا معیار نہایت پست ہو گیا ہے۔نئے موسیقار اب بے ہنگم شور اور نرم و ملائم موسیقی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔وہ مجھے اُس ملاقات میں بہت بد دل لگی۔اِس طرح اُس نے بتدریج فلمی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔
ایک مرتبہ مہناز نے راقم کو بتایا کہ اُس نے 350 سے زیادہ فلموں میں گانے گائے جِن میں اُردو، پنجابی اور سندھی فلمیں شامل ہیں۔اِسی زمانے میں اُس نے اپنی توجہ کا مرکز ریڈیو، ٹیلی وژن، ملکی اور غیر ملکی اسٹیج شوزکو بنا لیا۔
مہناز نے کن معروف لوگوں کی شاگردی کی؟ اِس کے جواب میں خود اُس نے بتایا: ’’ پنڈت غلام قادر،نیاز احمد، لال محمد اور بلند اقبال ( المعروف لال محمد اقبال) اورمیڈم نورجہاں میرے محترم اُستاد ہیں‘‘۔
مختلف موسیقار مہناز کی آواز کو مختلف انداز سے محسوس کرتے تھے اور اسی کی روشنی میں طرزیں بناتے تھے ۔کریم بھائی المعروف کریم شہاب الدین صاحب کا کہنا تھا : ’’ دھن پر غور کرنے کے بعد وہ شعروں اور اُس کے ہر ہر لفظ پر توجہ دیتی تھی۔ بس ایک دفعہ انترے کو گا کر بتانا کافی ہوتا تھا ۔باقی کا کام خود بخود ایسے ہوتا تھا گویا ایک میوزک کنڈکٹرا ور ایک شاعر بھی بیٹھاہے‘‘ ۔میرے مشاہدے کے مطابق وہ بہت زیادہ غور کیا کرتی تھی کہ کہاں سانس لینا ہے، اُس کی یہ ہمیشہ کوشش ہوتی کہ شعر کے معنی کا تاثر محض آواز کے زیرو بم سے بالکل واضح ہو۔احقر کو ایسا لگتا تھا جیسے کہیں پورا سُر جم کر لگ رہا ہے اور کہیں بس ہلکا سا سُر کو چھو کر واپس آ جاتا ہے … واہ مہناز … ایسا کام کم کم دیکھا۔وہ بولوں کی طرز کے ہر سُر پر سُر کا حق ادا کرتی تھی۔ یہاں ایک بات لکھنا بہت ضروری ہے: 1981 میں اختر وصی علی اور مہناز کی والدہ کی موجودگی میں ،میں نے اُن تینوں سے سوال کیا:’’ کیا وجہ ہے کہ آج کل کے گلوکار/گلوکارا ئوں کی آوازیں اور سازندوں کے ساز بے اثر ہیں؟ یہ دل کی تاروں کو کیوں نہیں متاثر کرتے؟‘‘ اِس پر مہناز نے کیا جواب دیا وہ ملاحظہ ہو: ــ ’’ گانے والے اور بجانے والے جب سارا دِن جھوٹ بو لیں گے، کوئی منٹ کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کیے بغیر نہیں گزرے گا تو سچا سُر کیسے لگ سکے گا؟‘‘
یہ سچی آواز19 جنوری ، 2013 کو خالقِ حقیقی سے جا ملی۔

مزیدخبریں