راولپنڈی (این این آئی + آن لائن+ نوائے وقت رپورٹ) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے ملک میں جمہوریت چلنا ضروری ہے، جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچتے رہیں تو جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، وقت پر انتخابات الیکشن کمیشن کو کرانے ہیں، آئینی حدود میں انتخابات سے متعلق جو بھی احکامات ملیں گے اس پر عمل درآمد کریں گے، بھارتی جارحیت کا سرحد پر بھرپور جواب دیا جارہا ہے، کوئی مس ایڈونچر ہوگا تو اس کا جواب دینگے اور دیا جاتا رہے گا، مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد بھارت کے قابو سے باہر ہورہی ہے، ایل او سی پر بھارتی جارحیت کا ایک مقصد مسئلہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانا، دوسرا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہماری توجہ ہٹانا ہے، پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کا الزام بے بنیاد ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا آرمی چیف جنرل قمر باجوہ بھی جمہوریت کے حامی ہیں، انہوں نے ہمیشہ کہا ہے وہ آئین اور قانون پر یقین رکھتے ہیں اسی لئے وہ سینٹ میں جانیوالے پہلے آرمی چیف بھی ہیں۔ انہوں نے کہا آرمی چیف نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کا دورہ کیا۔ بھارتی جارحیت کا سرحد پر بھرپور جواب دیا جارہا ہے۔ بھارت نے کئی بار سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیاں کیں۔ انہوں نے کہا پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کا الزام بے بنیاد ہے، یہ کہنا غلط ہے پاکستان میں بیٹھے حقانی نیٹ ورک کے افراد افغانستان میں حملے کررہے ہیں کیونکہ حقانیوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔ انہوں نے کہا ملک میں استحکام بہت ضروری ہے، ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ فوج عوام کی فوج ہے اور عوام کی بہتری کیلئے فوج کو جو کرنا پڑے گا کریں گے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق فوجی ترجمان نے کہا ملک میں استحکام بہت ضروری ہے۔ ملک میں عدم استحکام ہو تو دشمن اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، ملک میں جمہوریت چلنا ضروری ہے، جمہوریت کو ہم سے خطرہ نہیں ہے۔ انتخابات وقت پر الیکشن کمشن نے کرانے ہیں، عوام کیلئے جو بھی کرنا پڑے گا کریں گے۔ یہ فوج عوام کی فوج ہے۔ آئینی حدود میں انتخابات سے متعلق جو بھی احکامات ملیں گے، عمل کریں گے۔ بھارتی وزیراعظم اور فوج کا مؤقف الگ الگ ہے، بھارت کو سرحد پر بھرپور جواب دیا جارہا ہے۔ پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے حملوں کا الزام بے بنیاد ہے۔ حقانیوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔ کوئی مس ایڈونچر ہوگا تو اس کا جواب دیا جارہا ہے اور دیا جاتا رہے گا۔ ایل او سی پر بھارتی کارروائی کا ایک مقصد مسئلہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے۔ جمہوریت کو فوج سے نہیں غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے خطرہ ہے۔ اللہ نہ کرے وہ وقت آئے کہ آرمی چیف الیکشن کا اعلان کریں۔ کابل حملہ حقانی نیٹ ورک نے کیا جن کا تعلق افغانستان سے ہے۔ حقانی افغان ہیں اور وہی کارروائیاں کررہے ہیں، ہم نے حقانی نیٹ ورک کیخلاف آپریشن کیا اور وہ افغانستان بھاگ گئے۔ ضرب عضب سے دہشتگردوں کے تمام ٹھکانے تباہ کردئیے۔ آرمی چیف قانون کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں۔ سینٹ کے انتخابات الیکشن کمشن اور حکومت نے کرانے ہیں۔ آن لائن کے مطابق میجر جنرل آصف غفور نے کہا فوج پاکستانی عوام کی ہے اور ملک میں جمہوریت کو چلتے دیکھنا چاہتی ہے، جمہوریت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں، حقانی افغانستان سے ہیں پاکستان سے حقانیوں کی افغانستان میں کارروائیوں کا تاثر غلط ہے، افغان مہاجرین کی وجہ سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بھارت نے 2017 ء میں سب سے زیادہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں کیں، بھارت مسئلہ کشمیر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی بھارت کے قابو سے باہر ہوگئی ہے۔ جس سے توجہ ہٹانے کیلئے وہ سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پچھلے سال بھی 26 جنوری کو اپنی پریڈ کے موقع پر اور کسی ہائی پروفائل دورے کے موقع پر خلاف ورزی ہوتی ہے ایک ماحول بنانے کیلئے کہ پاکستان کس طرح بھارت میں مداخلت کرتا ہے۔ ہماری ساری توجہ دہشتگردی کے خلاف جنگ پر ہے۔ بھارت دہشت گردی کیخلاف جنگ اور مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ ڈرامہ رچاتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے بیان میں کہا کہ جنگ بہت ہوچکی ہمیں امن عامہ پر توجہ دینا چاہیئے لیکن وہ جو کہتے ہیں اس کے برعکس لائن آف کنٹرول کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔بھارت کہتا کچھ اور کرتا کچھ ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج پروفیشنل فوج ہے۔ ملک میں اندرونی استحکام ہونا نہایت ضروری ہے۔ غیر مستحکم حالات کا دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں۔ضرب عضب میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن نہیں ہوا تھا وہاں ہر قسم کی دہشت گرد تنظیمیں اور حقانی نیٹ ورک بھی تھا۔ لیکن جب ہم نے ضرب عضب مکمل کیا تو عملی طور پر ہم نے علاقے کو ہر قسم کی دہشت گرد تنظیموں سے کلیئر کرالیا۔ پاکستان میں 27 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ ان کی پناہ گاہیں پاکستان میں نہیں ہیں یہ کہنا کہ پاکستان سے جاکر حقانی نیٹ ورک حملے کر رہا ہے غلط ہے۔ دہشت گرد افغان پناہ گزینوں میں روپوش ہوجاتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک پہلے سے ہی افغانی ہیں۔ افغانستان کا 43 فیصد علاقہ اب بھی افغان طالبان کے زیر اثر ہے۔ پاکستان میں بیٹھے افغانیوں کا افغانستان میں حملے کرانے کا الزام بالکل مستند نہیں۔