معصوم زینب کے وحشیانہ قتل پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر ذی روح سراپا احتجاج ہے لیکن ملک بھر میں مذمتی ریلیوں اور جلوسوں کے باوجود آج تک پولیس ملزم گرفتار نہیں کر سکی۔ قصور کے لوگ جانی قربانیاں دے کر تھک ہار کے حکومتی ایوانوں سے تسلی و تشفی کے وعدوں پر اور خصوصاً آرمی چیف‘ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے از خود نوٹس لینے کے وعدوں پر اپنے گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ قصور میں یہ بارہواں کیس ہے جسے میڈیا نے قوم کے سامنے رکھا۔ اس سے پہلے جو واقعات ہوئے ہیں اگر اس وقت حکومتی اور عدالتی سطح پر بروقت نوٹس لیا جاتا تویہ زینب غنڈوں کے ہاتھ نہ چڑھتی۔ مقامی بااثر افراد اور ان کے پالتو بے راہرو نوجوانوں کی وجہ سے یہ قیامتیں گزر گئی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جہاں انتظامیہ ان کی ہو‘ پولیس ان کی ہو تو پھر یہی کچھ ہو گا۔ اتنے دن گزرنے کے بعد بھی ملزم کی شناخت نہیں ہو سکی۔ سی سی ٹی کیمروں کی فوٹیج سے بہت کچھ سامنے آیا لیکن حیران کن امر ہے اردگرد کے رہائشی اور رشتہ داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ حاصل کرنے کے باوجود پولیس ان ملزمان تک نہیں پہنچ سکی۔ اسی قصور میں کئی سال پہلے ایک سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کرنے والا جنونی بھی بڑی مشکل سے گرفتار ہو کر اپنے انجام کو پہنچا۔ سیاسی اور مذہبی رہنما زینب کے والد سے ہمدردی اور یکجہتی کیلئے آرہے ہیں۔ اگر یہ سیاسی زعما قصور نہ پہنچتے تو آج جن زوروں پر تفتیشی عمل جاری ہے شاید کیس فائلوں میں ہمیشہ کیلئے دب جاتا اور قصور کی ساری بچیوںکے والدین زندگی بھر انصاف کی بھیک مانگتے رہتے اور ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا۔آج اگر زینب کاملزم پکڑا جائے اور وہ مجرم ثابت ہوجائے تو اسے چوک میں لٹکا دیا جائے تو پھر کوئی ایسی جرات نہیں کرے گا۔ اس طرح درندگی کا باب بند ہو جائے گا۔
پنجاب بھر کے بلدیاتی اداروں کے وائس چیئرمین حضرات کئی ماہ سے احتجاج پر ہیں اور وہ مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں بھی اختیارات دئے جائیں۔ ڈیرہ غازیخان سے وائس چیئرمین حضرات کا واٹس اپ گروپ تشکیل پایا گیا جس میں وہ اپنا پیغام ایک دوسرے کو بھیجتے رہتے ہیں اور اپنی ہی حکومت کے خلاف صف بندی کرتے رہے۔ پتوکی میں صوبہ بھر سے وائس چیئرمین حضرات کے نمائندے اور اس تحریک میں مؤثر کردار ادا کرنے والے تمام لوگوں کا اجلاس ہوا۔ اس سے پہلے لاہور میں بھی ایسے اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن وعدہ فردا پر ہمیشہ بات ٹال دی جاتی۔ متحرک وائس چیئرمین حضرات کو ضلعی انتظامیہ اور مسلم لیگی مقامی گروپ لیڈرز کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی اور پھر سختی سے منع بھی کیا گیا کہ وہ تنظیمی طور پر مسلم لیگ کے رہنماؤں کی ہدایت پر عمل کریں بصورت دیگر انضباطی کارروائی بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود ڈیرہ غازیخان سے متحرک کارکنان لاہور گئے اور آخری خبریں موصول ہوئیں تو ان تمام شرکاء کو پھر تسلیوں اور تشفیوں سے واپس بھیج دیا گیا ہے۔ فیاض لغاری جو سب سے فعال کارکن رہے وہ لغاری سرداروں کے دباؤ میں ہیں۔ سارے احتجاج میں وہ لاتعلق رہے۔ حکومت پنجاب بھی مجبور ہے اگر وائس چیئرمین حضرات کے اختیارات بڑھاتے ہیں تو پھر چیئرمین حضرات کدھر جائیں۔ کل وہ بھی احتجاجی تحریک شروع کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ تمام انتخابات تک وائس چیئرمینوں کو کسی شکل میں راضی کر لیں تاکہ عام انتخابات میں بنیادی جمہوریت کے یہ کارکنان مسلم لیگ کا مضبوط حصہ رہیں۔ سانحہ قصور پر یہ بھی دل گرفتہ ہیں لیکن یہ احتجاج اپنی جگہ اہم ہے۔
میونسپل کمیٹی کوٹ چھٹہ کے چیئرمین ظفر عالم خان گورچانی کے بڑے بھائی سردار ارشد خان گورمانی کا گزشتہ ہفتے انتقال ہوا۔ مرحوم کوٹ چھٹہ کی معروف فیملی گورمانی کی معتبر شخصیت تھی علاقہ کی زمیندار اور کاروباری شخصیت ہونے کی وجہ سے علاقے میں بڑے احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ مرحوم کی قل خوانی پرعلاقے کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔