کسب ِ کمال اسلم کمال

Jan 23, 2019

ڈاکٹر فوزیہ تبسم

شاعر، نثرنگار، کالم نویس، سفرنامہ نگار، مصور، خطاط اور ڈیزائنر اسلم کمال کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اسلم کمال 23 جنوری 1939ء میں ضلع سیالکوٹ موضع کورپور پیدا ہوئے۔ انکے والد کا نام میاں محمد شفیع تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اقبال میموریل ہائی سکول گوٹھ پور مراد پور سے حاصل کی جس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ وہ پہلا سکول تھا جو علامہ اقبال کی یاد میں قائم ہوا۔ انہوں نے ایف اے گورنمنٹ کالج کوہاٹ سے کیا اور پھر بی اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اسلم کمال صاحب کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر ان کی ملک و قوم کیلئے خدمات کا اعتراف کرنا بہت ضروری سمجھتی ہوں۔ اسلم کمال جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اسلم یعنی پناہ اور کمال تکمیل، ان کی جائے پناہ ماں تھی اور اُنکی تکمیل ماں کی آغوش سے شروع ہوئی اور جب تک وہ حیات رہیں پوری محبت اور ذمہ داری سے اس پودے کو پروان چڑھاتی رہیں۔ اسلم کمال کی روح آج اپنی ماں کی آغوش کو ڈھونڈتی رہتی ہے۔ انکی والدہ نہایت شفیق تھیں جن کے نام اسلم کمال کی تخلیق ہوئی اور جن کی وجہ ہی سے ہم اسلم کمال صاحب کا جنم دِن منا رہے ہیں۔ اسلم کمال جب بھی گفتگو کرتے ہیں اُس میں والدہ کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ اور جب بات کرتے ہیں تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں تو وہ چند لمحوں کیلئے کہیں کھو کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ اسلم کمال اُس وقت کمال کرتے ہیں جب وہ ساری دنیا سے بیگانہ ہوکر بھی عالم استغراق میں اپنے اسٹوڈیو میں پناہ لیتے ہیں اور تکمیل و تخلیق کی آخری منزل کو پالیتے ہیں اور یہی اُن کی کامیابیوں کا راز ہے۔ اُن کاد ل نرم اور گداز ہے اُن کی آنکھوں کا پانی اُن کی تمام تر تخلیقات کا آئینہ دار ہے۔ وہ ایک نرم طبع، دھیمے مزاج کے انسان ہیں۔ انکی سوچ میں ایمان داری ہے، رواداری کا اثاثہ اُنکی روح میں سمایا ہوا ہے۔ وہ خط ِ کمال کے موجد ہیں مگر اُسکے ساتھ ساتھ وہ شاعر ہیں، ادیب ہیں اور اُن کا تخلیقی کام ’’اقبالیاتی مصوری‘‘ سے روشناس کرواتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اسکے علاوہ اُن کی بیشتر تخلیقات اب بلاشبہ نوادرات کا درجہ پا چکی ہیں۔ اسلم کمال ایک مکتب فکر اور معیارِ فن کا نام ہے۔ اسلم کمال نے چین کا دورہ کیا تو ’’لاہور سے چین تک‘‘ سفرنامہ تحریر کیا۔ وہ ناروے گئے تو ’’اسلم کمال اوسلو میں‘‘ انہوں نے نارویجن تہذیب و ثقافت اور ادب و فن کے گنج ہائے گرانمایہ کو اپنے دامن میں سمیٹا اور تحریر کردیا۔ اس سفرنامہ کو پڑھتے ہوئے تازگی اور مہک کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ انہوں نے بڑے فنکاروں، مجسمہ سازوں، مصوروں اور ادیبوں کو قریب سے متعارف بھی کروایا۔ اسلم کمال ایسے تخلیق کار ہیں جو اپنی ذمہ داریاں خوب پہچانتے ہیں۔
حنیف رامے سابق چیئرمین لاہور میوزیم اسلم کمال کے نظریے کی تائید کرتے رہے کہ کتابوں اور رسالوں کا گردپوش (Dust Cover) فن مصوری کا ابتدائی ذوق اور اوّلین شعور دیتا ہے۔ کتابوں اور رسالوں کے 20000سے زائد گردپوش تخلیق کرنے پر اُن کا نام اُردوسائنس بورڈ وزارت قومی ورثہ یک جہتی حکومت پاکستان نے گنیز آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرنے کی سفارش بھی کر رکھی ہے۔ جو ہم سب کیلئے قابلِ فخر مقام ہے۔ میں اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں اُنہوں نے اُردوشاعری کی کتاب ’’رستے میں دیوار تو ہے‘‘ کیلئے بہترین کمالات اور رنگوں سے خوبصورت Dust Cover تخلیق کیا جو میری کتاب کی زینت بنا اور جس کی وجہ سے میری کتاب کے رنگ روپ میں مزید نکھار آگیا اور یہ گردپوش انہوں نے مجھے بطور تحفہ عنایت کیا میں ہمیشہ اُن کی ممنون و مشکور رہوں گی۔
اسلم کمال آرٹس اور کلچر پر 9کتب تحریر کرچکے ہیں۔ انکی کتاب ’’گردپوش‘‘ اس موضوع پر پاکستان میں پہلی کتاب ہے۔ اسلم کمال صاحب کے اشعار اقبال پر فن پاروں کو بے انتہا مقبولیت حاصل رہی ہے جو کسی اور مصور کے حصے میں نہیں آئی۔ انہوں نے تہذیب و ثقافت پر بھی 8کتب تحریر کیں جن میں (1)اسلامی خطاطی، (2)قلم موقلم، (3)اسلم کمال اوسلو میں، (4)گمشدہ، (5)لاہور سے چین تک، (6)گردپوش، (7)ادیبوں اور شاعروں کے کیری کیچر، (8)کسبِ کمال ۔
انہیں بہت سی یونیورسٹیز سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ایوانِ اقبال میں مستقل آرٹ گیلری کا قیام بھی انکے کریڈٹ میں ہے۔ یونیورسٹی کالج آف فارمیسی پنجاب یونیورسٹی لاہور کلامِ اقبال کے سلسلے میں خدمات کے اعتراف میں ایک مستقل گیلری اقبال آرٹ گیلری کے نام سے قائم کی گئی۔ اسلم کمال صٓحب کو حکومت پاکستان کی طرف سے اُن کی خدمات پر پرائیڈآف پرفارمنس دیا گیا اور پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے پرائیڈ آف پنجاب بھی دیا گیا۔
اسلم کمال کی تجزیاتی، فکری یا روحانی مصوری ہو کلامِ غالب، کلامِ اقبال، یا کلامِ فیض اور صوفی تبسم کی تشریحی مصوری ہو وہ خود بول کر اسلم کمال کے نقش ایک حرف اور ایک رنگ کی پہچان ہے۔ اُنکی انفرادیت، جامعیت، شناخت اور سالمیت ہی اصل آرٹ ہے۔ اسلم کمال کا کام ہے روشنی پھیلانا سو وہ بکھیر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں چراغ یعنی روشنی کا مخزن زمانی و مکانی قید سے آزاد ہے۔ اس کا کام روشنی بکھیرنا ہے سو وہ بکھیرتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے۔ آمین
اسلم کمال صاحب کو جنم دن بہت بہت مبارک ہو۔ صوفی تبسم کے شعر پر ختم کرتی ہوں
انہی سے دِیر و حرم کے چراغ روشن ہیں
انہی کے دم سے دلوں کے ایاغ روشن ہیں

مزیدخبریں