جمہوریت سیاستدانوں کی شہ رگ

جمال خشوگی کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیسے کئے گئے دل دہلا دینے والی کتاب منظر عام پر آگئی۔ترکی کے تین صحافیوں نے اپنی نئی کتاب میں ظلم وبربریت کی اس داستان کو حرف بحرف تحریر کردیا ہے جس کا نشانہ سعودی نژاد کالم نگارجمال خشوگی بنا تھا۔ ایک ایک لمحے کی ریکارڈنگ سے حاصل ہونے والی تمام تفصیل لکھ کران ترک صحافیوں نے تاریخ کے حوالے کردی ہے۔ دوسری جانب امریکی حکمران جماعت کے بااثر ترین رہنما بھی اس قتل پر میدان میں نکل آئے ہیں۔
ترک صحافیوں کی تحریرکردہ کتاب میں انکشاف کیاگیا ہے کہ جمال خشوگی کو جب اذیت ناک طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا جانے والا تھا، تو قاتل ٹیم کے ایک فرد نے دوسرے سے کہاکہ ’’پہلے ہم اسے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اسے ریاض لے جارہے ہیں۔ اگر وہ نہ مانا تو ہم اسے یہاں قتل کردیں گے اور اس کی لاش سے جان چھڑالیں گے۔‘‘
کتاب کا نام ’سفارتی ظلم: جمال خشوگی کے قتل کے سیاہ راز‘
(Diplomatic Atrocity: The Dark Secrets of the Jamal Khashoggi Murder)
ترک زبان میں شائع ہونے والی یہ کتاب دسمبر 2018ء میں فروخت کے لئے موجود ہے۔جمال خشوگی دوسری شادی کے لئے ضروری کاغذات سعودی قونصل خانے سے حاصل کرنے کے لئے قونصل خانے گیا۔ خشوگی نے جو جدید گھڑی باندھ رکھی تھی، اس سے یہ گفتگو اس کی کار میں موجود آلے میں براہ راست ریکارڈ ہوتی رہی۔ ورنہ شاید کسی کو بھی کچھ معلوم نہ ہوتا کہ درون خانہ اس پر کیا قیامت گزر گئی۔کتاب میں مصنفین ترک صحافیوں میں عبدالرحمن سمسیک، نظیف کرامن اورو فرحت اونلو شامل ہیں۔ یہ تینوں حکومت کے حامی اخبار ’صباح‘ سے وابستہ ہیں اور جمال خشوگی قتل کیس کے لئے ان تینوں پر مشتمل ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ یہ تینوں ترک انٹیلی جنس کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کے لئے بھی مشہور ہیں۔ ان تینوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آڈیو ریکارڈنگز سنی ہیں۔ ایک ترک انٹیلی جنس اہلکار نے ان واقعات اور رپورٹس کی تصدیق کی ہے۔واقعات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جمال خشوگی کی آمد سے قبل قاتل ٹیم وہاں پہلے سے موجود تھی۔ترک حکومت تک یہ ریکارڈنگز کیسے پہنچی ہیں، یہ ہنوز راز ہے جس کے بارے میں ترک حکومت خاموش ہے۔ تاہم یہ ضرور کہاگیا ہے کہ ترک انٹیلی جنس حکام نے یہ ریکارڈنگز قونصل خانے کے مختلف مقامات سے جمع کی ہیں۔ اس ریکارڈنگ کے مختلف حصے سینئر حکام، سفارتکاوں کے علاوہ امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) کی پہلی خاتون ڈائریکٹر جینا ہیسپل کو بھی سنوائے گئے ہیں۔
اپنی کتاب میں ترک صحافیوں نے ایک ملزم کو مہر عبدالعزیز مطرب کے طورپر پہنچانا ہے جو سکیورٹی اہلکار ہے۔ مطرب ٹیم کو ہدایات دیتے سنا گیا ہے اور ٹیپ میں خشوگی کے بارے میں گفتگوکرتے سنا جاسکتا ہے۔ کتاب کے مطابق ’’ترک حکام نے مطرب کی آواز کے تجزیے سے اسے پہچانا ہے۔ ‘‘
ترک حکام کا کہنا ہے کہ مطرب نے اعلی فارنزک ماہر صالح الطوبیغ کو یہ منصوبہ پیش کیاتھا اور اسے کہاتھا کہ وہ خشوگی کو واپس سعودی عرب لے جاتے ہیں۔ اگر خشوگی نے مزاحمت کی تو ہم اسے یہیں قتل کرکے اس کی لاش سے نجات پالیں گے۔کتاب میں الطوبیغ سے منسوب یہ گفتگو درج ہے کہ ’’جمال لمبا ہے، اس کی قامت تقریبا 1.80میڑ ہے۔قربانی کے جانور کے جوڑ آسانی سے الگ ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ٹکڑے کرنے میں وقت لگے گا۔ میں اکثر لاشوں پر ہی کام کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ صحیح طورپر کیسے کاٹنا ہے۔ میں نے اب تک کسی اتنی گرم لاش پر کام نہیں کیا لیکن میں اسے با آسانی نمٹ لوں گا۔ عموما میں جب کسی لاش پر کام کرتا ہوں تو ہیڈ فون لگا لیتا ہوں تاکہ موسیقی سن سکوں۔ اس دوران میں کافی اور سگریٹ پیتا ہوں۔‘‘ الطوبیغی مزید کہتا ہے ’’ جب میں اس (جمال خشوگی) کے حصے بخرے کرلوں تو تم اسے پلاسٹک کے تھیلوں میں ڈال کر سفری سامان میں رکھ لو اور جسمانی حصے باہر لے جاؤ۔‘‘
کتاب میں بیان کیاگیا ہے کہ جیسے ہی جمال خشوگی سعودی قونصل خانے میں داخل ہوا تو اسے یہ کہتا سنا گیا کہ ’’میرا ہاتھ چھوڑو۔ تم لوگ کیاکررہے ہو۔‘‘ رپورٹرز نے کتاب میں تحریر کیا کہ ’’خشوگی جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا۔ مطرف نے اسے کہاکہ آئیں۔ بیٹھیئے۔ ہم آپ کو ریاض لے جائیں گے ۔‘‘ خشوگی نے مختصراور واضح جواب دیا ’’ میں ریاض نہیں جاؤں گا۔‘‘ کتاب کے مطابق قاتل ٹیم چاہتی تھی کہ جمال خشوگی اپنے بیٹے کو یہ پیغام بھیجے کہ ’’ میرے بیٹے، میں استنبول میں ہوں۔ فی الوقت میری اطلاع نہ ملے تو پریشان نہ ہونا۔‘‘جمال خشوگی نے اس سے بھی انکار کردیا۔ مطرب نے حکم دیا کہ آلات نکالو جو ہم اس کی لاش کے ٹکڑے کرنے کے لئے لائے ہیں۔ ریکارڈنگ میں ان آلات کو نکالنے اور رکھنے کی آوازیں سنی جاسکتی ہیں۔’’کیا تم مجھے قتل کرنے لگے ہو ؟ کیا تم میرا گلا گھونٹنے والے ہو؟‘‘۔ مطرب جواب دیتا ہے ’’تعاون کرو گے توتمہیں معاف کردیاجائے گا۔‘‘ پھر مطرب پانچ ایجنٹس کو حکم دیتا ہے کہ خشوگی پر چڑھ دوڑو۔ ایک ایجنٹ جس کے بارے میں کتاب میں شناخت ضارغالب الحربی بتائی گئی ہے ،خشوگی کا منہ ڈھانپنے کی کوشش کرتا ہے۔ آڈیو کے مطابق خشوگی نے اسے پرے دھکیل دیا۔اس گروہ میں محدم سعد الذہرانی بھی شامل ہے۔
قاتل آخر کار خشوگی کے چہرے کو پلاسٹک تھیلے سے ڈھانپنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پانچ منٹ گزرنے پر اس نے آخری سانس لیا اور اس کے آخری الفاط آڈیو میں یہ ریکارڈ ہوئے کہ ’’میرا منہ مت ڈھانپو میں دمے کا مریض ہوں۔ ایسا مت کرو۔ میرا گلا مت گھونٹو۔‘‘
خشوگی کی موت کے بعد مصطفی المدنی جسے خشوگی کا بہروپ بھرنے کے لئے قاتل ٹیم ساتھ لے کر آئی تھی، اور سیف سعد القحطانی کہتے ہیں کہ اس کے کپڑے اتارو۔ اس کی لاش کے ٹکڑے کرنے میں حربی اور الظہرانی مطرب کی مدد کرتے ہیں۔ فارنزک ماہر الطوبیغ اپنے ارد گرد افراد کو مسلسل احکامات جاری کرتا ہے اور ان پر چلاتا ہے کہ ’تم سب کس بات کا انتظار کررہے ہو۔‘
کتاب میں بتایاگیا ہے کہ جب یہ واقعہ رونما ہورہا تھا تو قونصلیٹ کے ملازمین اس پر انتہائی بیزاری کا اظہار کررہے تھے۔ رپورٹرز نے آڈیو کے مطابق بیان کہ ’’ اس کے بعد ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے جانور کا گوشت کاٹنے کے لئے بھاری چھرا (بْغدا) چلانے سے آتی ہیں، جیسے جسم اور ہڈیوں کو جدا کرنے کے لئے کاٹاجاتا ہے۔ پھر لاشوں کا پوسٹمارٹم کرنے کے دوران استعمال ہونے والے برقی آرے کی آواز سنائی دیتی ہے۔‘‘ جمال خشوگی کی موت دن ایک بج کر چوبیس منٹ پر ہوئی۔ یعنی سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے دس منٹ بعد۔
اس کتاب نے امریکہ سمیت پوری دنیا میں ایک بار پھر شور برپا کردیا ہے۔ امریکی برسر اقتدار پارٹی ری پبلکن کے کلیدی رکن اور سینیٹر لِنڈسے گرَاہم بھی میدان میں نکل آئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن