عالمی برادری کشمیریوں کی نسل کشی کا نوٹس لے

Jan 23, 2020

جی۔ این بھٹ

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے بدترین محاصرے کرفیو اور لاک ڈاؤن کو چھ ماہ ہونے والے ہیں۔ بھارتی انتہا پسند حکمران مودی سمجھ رہا تھا کہ اس طرح کشمیریوں پر زندگی کے دروازے بند کر کے انہیں نازی کیمپوں کی طرح بھوکا پیاسا محصور کر کے وہ اس قوم سے زندہ رہنے کی امنگ چھین لے گا تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ کشمیری بھوک ننگ، افلاس اور بے رحم موسم اور حکمرانوں کے مظالم کا ڈیڑھ صدی ہوئے مردانہ دار مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ مغلوں کے بعد افغانوں کے مظالم ہوں یا ان کے بعد سکھوں کے ستم اور اس کے بعد ڈوگروں کے ظلم وستم نے اس قوم کو بدحال ضرور کیا تباہ حال ضرور کیا۔ مگر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ بحیثیت قوم کشمیریوں نے طویل مزاحمت کر کے اپنے وجود، تشخص اور ریاست کی حفاظت کی اور اسے برقرار رکھا ۔ اپنے 5 ہزار سالہ دور آزادی اور حکمرانی میں کشمیریوں کی جو خوداری، قوم پرستی اور آزادی کی عادت تھی وہ برصغیر کی تقسیم تک ختم نہ ہوئی۔ 1947ء میں پاکستان کے قیام کے وقت مہاراجہ کشمیر نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور بنا سوچے سمجھے نہرو اور پٹیل کے بہکاوے میں آ کر ریاست جموں و کشمیر کو انارکی کے جہنم میں دھکیل دیا۔نہرو اور پٹیل نے جو سبز باغ مہاراجہ کشمیر اور شیخ عبداللہ کو دکھائے اس کا خمیازہ آج پوری کشمیری قوم بھگت رہی ہے۔ انتہا پسند ہندو نواز مودی کی حکومت نے 72 سال بعد بالاخر ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کر کے رکھ دیا۔ لداخ کو براہ راست ہندوستان کے ماتحت کر دیا اور کشمیر کو بھارتی صوبہ بنا دیا۔ یوں دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو جو خصوصی حیثیت حاصل تھی وہ بھی نمک کی طرح پانی میں تحلیل ہو گئی۔ ریاست اب 3 حصوں میں ٹوٹ کر بکھر چکی ہے۔ کشمیر اور لداخ بھارت کے پاس ہیں گلگت بلتستان پاکستان کے براہ راست کنٹرول میں ہے۔ اب بھارت نہایت بے شرمی سے آزاد کشمیر پر نظریں گاڑھے ہوئے ہے۔ کنٹرول لائن پر اس کی جارحانہ کارروائیاں بڑھ رہی ہیں۔ کشمیر میں 5 اگست 1999ء سے لے کر اب تک اس کے ناجائز اور بے رحمانہ اقدامات کی ساری دنیا مذمت کر رہی ہے۔ سلامتی کونسل تک اس بارے میں ہنگامی اجلاس دو مرتبہ بلا چکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں شور مچا رہی ہیں مگر بھارت کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ وہ پوری طاقت وحشت اور بربریت سے 6 ماہ ہو رہے ہیں کشمیریوں کو ان کی آواز کو دبا رہا ہے۔ 90 لاکھ کشمیری مسلسل محاصرے کرفیو اور لاک ڈائون میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کو خوراک ادویات اور کی ایندھن کی بدترین قلت کا سامنا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ اس کے جبر کے سامنے سر جھکا دیں۔ تو وہ ان پر دنیا کی ہر نعمت کھول دے گا۔ مگر کشمیری اپنی آزادی کے نعرے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ پوری وادی میں ہر جگہ صرف ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے اور وہ ہے ’’ہم کیا چاہتے ہیں‘ آزادی‘‘ فون‘ انٹرنیٹ‘ بجلی‘ گیس کی بندش بھی ان کے آزادی کے عزم کو توڑ نہیں سکی۔ بھارت کے غاصب حکمران سمجھ رہے تھے کہ جلد ہی کشمیری ٹوٹ جائیں گے۔ مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ اتنی سختی اور قدم قدم پر فوجی پہرے کے باوجود بھارت کی 9لاکھ سے زیادہ سفاک فوج کشمیر میں بے بس ہے۔ آئے روز کہیں نہ کہیں اس کا مقابلہ کشمیری مجاہدین سے ہوتا رہتا ہے۔ جس کے جواب میں ظالم افواج ان مکانات کو ہی بارود سے اڑا دیتی ہے جس میں خدشہ ہو کہ مجاہد موجود ہیں۔ اس کے باوجود شہیدوں کے جنازوں میں ہزاروں افراد اپنے مجاہدوں کو آزادی کے پروانوں کو اپنی دھرتی ماں کی گود میں سپرد خاک کرنے کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ کیا یہ بھارت کیلئے شرمندگی کا مقام نہیں کہ اس کی لاکھوں فوجی بھی نہتے کشمیریوں کو شکست نہیں دے سکے۔بے شک اس وقت اپنوں اور غیروں کی مہربانی سے کشمیری اپنی ریاستی وحدت کو کھو چکے ہیں مگر ان کی آزادی کی لو ابھی تک 90 لاکھ کشمیریوں کے سینوں کو روشن کئے ہوئے ہے۔ ریاست گئی‘ جھنڈا گیا‘ آئین گیا مگر کشمیریوں کی کشمیریت‘ آزادی کی خواہش اور جدوجہد ابھی تک جواں ہے۔ جب تک وادی کشمیر میں ایک بھی کشمیری زندہ ہے‘ وہ حالات کے جبر کے سامنے سرنڈر نہیں ہوگا۔ اسکے ہاتھ میں بھارت کو مارنے کیلئے پتھر اور زبان پر آزادی کا نعرہ ہوگا۔ کیا اقوام متحدہ اپنے ایجنڈے پر موجود اس پرانے مسئلے کے حل سے غافل رہے گی جو اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کی جان لے چکا ہے اور 90 لاکھ کشمیری سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔ اگر امت مرحومہ کی عالمی تنظیم او آئی سی یا صرف تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک ہی بھارت کو نکیل ڈالنے کیلئے آگے بڑھیں تو 90 لاکھ مسلمان کشمیریوں کو بھارت کے مظالم سے نجات مل سکتی ہے۔ ان کی جہنم بنی زندگی دوبارہ جنت بن سکتی ہے۔ حکومت پاکستان کم از کم یہی بات ان غافل حکمرانوں کو بھی سمجھا دے۔

مزیدخبریں