باون پتے میں کرشن چندر نے ممبئی کی فلم انڈسٹری کو موضوع بنایا ہے اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد کے عرصے میں لکھے گئے ناول میں ان دنوں فلمی صنعت سے وابستہ تمام تر شعبوں سے منسلک افراد کو اس ناول میں شامل کیا گیا ہے۔اس ناول میں فلمی صنعت میں زیادہ پیسہ کمانے کے لئے فلموں میں شامل کئے گئے جنسی گانوں اور جنسی موضوعات کے ساتھ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی جنسی بے راہ روی کو بہت موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔تحریر اور انداز بیاں ایسا کہ گویا الفاظ کے موتی پرو دیے ہوں۔اس حوالے سے ناول کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:زندگی بار بار نہیں آتی صرف ایک بار آتی ہے اور وقت سمندر کے کنارے پھیلی ہوئی ریت کی طرح ہے تم اس میں کتنی مٹھیاں بھر سکتے ہو ایک یا پھر دو، وقت تو بس پچاس یا سو برس کا ہے مگر اس سے زیادہ نہیں پھر سوچو' تم اس ریت کو کھا نہیں سکتے زیادہ سے زیادہ تم اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں جھونک سکتے ہو اور بہت سے لوگ اپنی زندگی میں ایسا کرتے ہیں وہ لوگ ظالم ہوتے ہیں پھر کچھ لوگ جو اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں ڈالنے کی بجائے اپنی آنکوں میں ڈال لیتے ہیں وہ لوگ بزدل اور اذیت پسند ہوتے ہیں۔کچھ لوگ اس ریت سے محل بناتے ہیں وہ لوگ احمق ہوتے ہیں کچھ لوگ نہایت احتیاط سے ریت کے ایک ایک ذرے کو گننے لگتے ہیں وہ اس دنیا کے کنجوس ہیں کچھ لوگ اس ریت کو اپنے سر پر ڈال لیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں وہ لوگ اس دنیا کے بچے ہیں اور دنیا کی ساری معصومیت انہی کے نام سے قائم ہے۔ناول اور فلم انڈسٹری کے ماحول سے دلچسی رکھنے والوں کیلئے کرشن چندر کی تحریر معلومات کیساتھ ساتھ گہری دلچسپی کی بھی حامل ہوگی ۔ناول کے ناشر محمد خالد چودھری بابائے اردوبازار ہیں ،نئے ایڈیشن کی قیمت 300روپے ہے جو پنجاب بکڈپو اردو بازار سے دستیاب ہے فون نمبر 042 -37233749 درج ہے ۔(تبصرہ : ڈاکٹرشاہ نواز تارڑ)