تم پرچم لہرانا ساتھی، میں بربط پر گاؤں گا

سال گزشتہ کے وسط میں جب جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاتحریری اعلان کیا گیا تو کسی قابل تذکرہ سیاسی رہنمائ￿ ، پارٹی یا مفاد عامہ سے متعلق گروہ کی جانب سے اعتراض یا احتجاج کا حرف سننے میں نہیں آیا تھا۔ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن جو کہ اْن دنوں ہمہ وقت عالم طیش میں پائے جاتے تھے، ایک ’سرکاری ملازم‘کی مدت ملازمت کے سوال کو معمول کی کاروائی قرار دے کر اہمیت نہ دینے کی نصیحت فرماتے ہوئے پائے گئے۔
پھر یوں ہوا کہ مدت ملازمت کے عین خاتمے سے چند روز قبل ایک عادی عرضی گزار کی عرضی پر سے گرد جھاڑ کر سپریم کورٹ میں اس کی باقاعدہ شنوائی کا آغاز کر دیاگیا۔ دورانِ سماعت جب نت نئے سوالات اٹھائے جا رہے تھے تو کئی پڑمردہ چہروں اور بے جان آنکھوں میں زندگی لوٹ آئی۔ دو روزہ ہیجانی کاروائی کے بعد تیسرے روز معاملہ حکومت کولوٹاتے ہوئے پارلیمنٹ کو حکم دیا گیا کہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پرچھ ماہ کے اندر اندر مناسب قانون سازی کی جائے۔ سپریم کورٹ کے حکم کا منشائ￿ بظاہر اس قانونی خلائ￿ کو پر کرنا تھا کہ جس کی بنائ￿ پر اب تک محض ’روایت‘ پر انحصارکیا جاتا رہا تھا۔بادی النظر میں سپریم کورٹ کا حکم نامہ کسی ایک فرد سے متعلق نہیں بلکہ آنے والے تمام چیفس کی تعیناتی و متعلقہ معاملات کا احاطہ کرتا ہوا نظر آیا۔ جنرل باجوہ کی ذات کہیں بھی اور کسی سطح پر بھی زیرِ بحث نہ آئی۔ اپوزیشن کی چاند ماری بھی معاملے کو ’مس ہینڈل‘کرنے اور ’ناقص نوٹیفکیشن‘ جاری کرنے پر مرکوز رہی۔ اب جبکہ مذکورہ حکم کے نتیجے میں ہونے والی قانون سازی منتخب وزیرِاعظم کے اختیارات پرکوئی قدغن نہیں لگاتی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون سازی کو ’سویلین بالادستی‘کا مقدمہ کیوں کر
بنادیا گیاہے؟ بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بل کی غیر مشروط حمایت اور قانون سازی میں غیر معمولی سرعت ہی وہ حقیقی عوامل ہیں کہ جو جمہوریت پسندوں کی دل گرفتگی کا سبب بنے یا کہ پسِ پردہ ہزاروں خواہشیں ایسی تھیں کہ جن کے زبان پر لانے سے دم نکلتا ہو؟ اگرچہ مایوس ہونے والے جمہوریت پسندوں میں اکثریت ان نظریاتی افراد کی ہے کہ جن کی بے بسی کوتضحیک کا نشانہ بنائے جانے کی بجائے اس کے پیچھے کارفرما عوامل کو ہمدردی سے دیکھا جا نا چاہئے۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دو بڑی جماعتوں کو بک جانے اور جھک جانے کے لئے شدید تنقید کا نشانہ بنانے والے کئی ایک ماتمی خواتین و حضرات کے چہرے جانے پہچانے ہیں۔ گزشتہ چندبرسوں کے دوران نمو پانے والی نفرت اور مخاصمت کی زہریلی فضائ￿ میں جو شاداب پائے گئے۔مخاصمت کے زہر آلود بیانئے کو جنہوں نے پہلے پرویز مشرف کے خلاف بے وقت مقدمہ بازی اور پھر جنگ گروپ کی بے جا پشت پناہی سے لے کر ڈان لیکس تک بڑی امیدوں سے سینچا تھا۔2017 ئ￿ کے وسط، اپنی ریٹائرمنٹ کے چند ہی ہفتوں بعد میں نے جو قلم اٹھانے کی جسارت کی تو میرا پہلا مضمون روزنامہ’نوائے وقت‘ میں چھپا۔ تین قسطوں پر مشتمل’اداروں سے مخاصمت نہیں، ان کو گلے سے لگانے کے ضرورت ہے‘ کے عنوان سے چھپنے والا مضمون کسی دانشور کی فلسفیانہ موشگافیوں کی بجائے ایک از کارِ رفتہ سپاہی کے دل کی آواز تھی۔ وزیرِ اعظم ہاؤ س کے اندر سرگرم میڈیا سیل کی بھاگ دوڑ مگر اب ’مزاحمتی‘ ہاتھوں میں تھی۔ تفصیل اس اجمال کی ہرگز درکار نہیں کہ اس دور میں جلسے جلوسوں، پریس ٹاکس، اور ٹی وی ٹاک شوز میں بولی گئی زبان اب بھی فضاؤں میں معلق ہے۔ اداروں کے حق میں دو حرف بولنے والوں کو’بوٹ پالشیا‘ جبکہ نفرت کے بیانئے کی تائید نہ کرنے والے صحافیوں کے لئے ’حوالدار‘ جیسی تضحیک آمیز تراکیب ایک خاص سوشل میڈیا سے جڑے خواتین و حضرات کی ہی ایجاد ہیں۔ انتخابات سے پہلے ’خلائی مخلوق‘ اور ان کے بعد’سلیکٹر، سلیکٹڈ‘ کا شور اس منظم طریقے سے مچایاگیا کہ اس کی باز گشت سرحد پارتک سنی گئی۔ خم ٹھونک کر کہا گیا کہ اب ’جمہوری طاقتیں‘ ووٹ کو عزت دو کے بیانئے سے ہر گز پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ دانشوروں اور کچھ مفاد پرستوں نے سندھ میں نوجوان زرداری اور پنجاب میں باپ بیٹی کو مزاحمت اور عزیمت کا استعارہ بنا کر بَلّی پر لٹکا دیا۔ دو بڑے میڈیا گروپ ان کی پشت پر کھڑے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھرتی کئے گئے بیروزگار و نیم خواندہ نوجوانوں کے لشکر رزمیہ گیت گاتے اپنے ہی قومی اداروں کی قیادت کو کبھی مبہم استعاروں توکبھی برہنہ تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ ہم جیسے گھروں میں بیٹھے بے بسی سے تکتے رہے۔ وفاقی وزیر کے تھیلے سے برآمد ہونے والا فوجی بوٹ، دراصل نفرت کے اسی بیانئے کے غیر مرئی استعاروں اور برہنہ اشاروں کا مجسم روپ ہے جبکہ حالیہ قانون سازی کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو جس خفت کا سامنا ہے وہ انہی بلند آہنگ نعروں کی بازگشت ہے۔
پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کہ جہاں تمام تر پالیسیاں ’زرداری فیکٹر‘ کے گرد گھومتی ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ن لیگ کو روایتی طور پر دوکیمپس میں منقسم رکھا گیا ہے۔ حالیہ سالوں میں بھی جناب نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کے کیمپ کو’مزاحمت و عزیمت‘ کے علمبردار جبکہ شہبازشریف اور ان کے ہمنواؤں کو’معاملہ کرنے والا‘ گروہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں جب پارٹی کو اپنے مزاہمتی بیانیئے سے مبینہ پسپائی کی بنائ￿ پر اپنے ہی سوشل میڈیا کے لشکریوں کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا درپیش ہوا تو ’مریم کیمپ‘سے وابستہ افرادنے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ مریم نواز توجاتی عمرہ میں محبوس ہیں اور عالمِ بے بسی میں اس’جمہوریت دشمن‘ قانون سازی پر تلملا رہی ہیں۔ مگر افسوس کہ خواجہ آصف نے ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوڑ دی۔ بتایا گیا کہ قانوں سازی کی غیر مشروط حمایت کو خود جناب نواز شریف کی کامل تائید حاصل ہے۔ اس انکشاف کے بعدمریم بی بی کے مزاحمتی بیانیے کا بکنا ممکن نہ رہا تو ایک نیا ’سودا‘بازار میں لایا گیا۔چند روز قبل’ڈان‘ میں چھپنے والی مفصل رپورٹ میں نا معلوم لیگی رہنمائ￿ غیر مبہم انداز میں اپنے کارکنوں کو تسلی دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اس قانون سازی کے بدلے میں ن لیگی قیادت سے کچھ ایسے ٹھوس وعدے کئے گئے ہیں کہ جس کے نتیجے میں پارٹی اسی سال اقتدار میں واپس لوٹ رہی ہے۔میں زیر زمین بہنے والی سیاسی حرکیات و محلاتی جوڑ توڑ سے تو آگاہی نہیں رکھتا، تاہم خیال تو اسی بلی کا آتا ہے جو کھمبا نوچتے ہوئے پائی گئی تھی۔
فیصل واؤڈا کا طرز عمل واہیات اور اداروں کی تضحیک کی ارادی یا غیر ارادی کوشش ہے۔ تاہم ان کے اس مضحکہ خیز طرزِعمل کو اسی مسلسل و منظم معاندانہ مہم کے پسِ منظر میں دیکھا جانا چاہئے کہ جو پچھلے چند سالوں سے مختلف استعاروں کی صورت میں برپا رکھی گئی۔ فکری خلفشار کے مارے رومان پرست دانشور وں نے، یوسفی صاحب کے پیرائے میں، خود کے لئے تودور مرمریں مینار پر بیٹھ کر بربط پر متروک رزمیہ ترانے گانے کا انتخاب کیا، مگرباپ بیٹی کو میدان کازار میں عزیمت کا پرچم اٹھائے کٹتا مرتا دیکھنے کے مشتاق رہے۔اب پڑے زخم چاٹ رہے ہیں۔ میرا مخاطب یہ متروک دانشور ہر گز نہیں۔ وہ بھی نہیں کہ جو بغض سے بھرے بیٹھے ہیں اور جن کی امیدیں سات سمندر پارسے نمو پاتی ہیں۔جو اداروں کی مخاصمت میں ہر معاشرتی برائی حتی کہ معاشی لوٹ مار سے بھی صرفِ نظر کو تلے رہتے ہیں۔ میں تو محض ان ’جمہوریت پسندوں‘سے ملتجی ہوں کہ جو کسی کی نفرت میں ڈوب کر نہیں بلکہ جمہوریت کے مسلمہ اصولوں اور اعلیٰ انسانی اقدار سے وابستہ ہو کر جیتے ہیں۔میں کہ ایک از کاررفتہ سپا ہی ان جمہوریت پسندوں کے اخلاص اور مجروح جذبات کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ انہی کی خدمت میں عرض گزار ہوں کہ معروضی حالات میں اب بھی مخاصمت نہیں، مکالمہ ہی درکارہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...