امریکہ کے 2001میں افغانستان پر قبضے کے ایک سال بعد ہی عالمی میڈیا نے بتادیا تھا کہ شمالی اتحاد کی سفارش پر امریکہ پاکستان کے دیرنہ دشمن بھارت کو افغانستان میں قیام امن اور تعمیروترقی کیلئے خصوصی کردار سونپنے پر راضی ہوگیا ہے ۔ چند ماہ بعد قندھار وجلا ل آباد جیسے پاک سرحد سے ملحقہ صوبوں میں بھارتی کونسل خانوں کے قیام کے حوالے سے آنے والی اطلاعات سے ثابت ہوگیا تھا کہ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف دوسرے ’’فرنٹ‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے ۔ بعد ازاں پاکستان سے ملحقہ مزید تین افغان صوبوں میں بھی بھارتی سفارتی مراکز فعال کردیے گئے ۔ امریکہ افغانستان میں پشتو بولنے والے ان افغان مجاہدین کے خلاف جنگ لڑنے آیا تھا جو اس کے اپنے تیارکردہ تھے اور انہیں طالبان کا نام بھی امریکہ نے ہی دیا تھا ۔ یوں دنیا طالبان کے نام ،قیام اور کام کے مقاصد سے بخوبی آگاہ تھی۔ ’’نائن الیون‘‘سے قبل طالبان جتنا عرصہ افغانستان میں برسراقتدار ہے۔ مغربی میڈیا ہمیں بتاتا رہا کہ طالبان نے کس طرح افغان قبائلی معاشرے میں امن وامان کے قیام کو ممکن بنایا ۔ خواتین پر تعلیم ، پردے کے حوالے سے لگائی گئی پابندیوں پر تنقید بھی کی جاتی ساتھ ہی ان کی تعریف و توصیف بھی کہ شرعی قوانین کو بروئے کار لاتے ہوئے طالبان نے افیون کی کاشت پر پابندی اور صدیوں سے جاری اسلحہ اٹھا کر پھرنے کی روایت کو توڑتے ہوئے اسے قانون جرم قرار دے کر پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں رشوت ستانی ، ناجائز منافع خوری اور دیگر معاشرتی برائیوں سے تنگ عوام طالبان کوان مسائل کا حل قرار دینے لگے تھے اور چاہتے تھے کہ افغانستان کی طرح پاکستان میں بھی طالبان کی ایسی ہی حکومت قائم ہو جو انہیں لوٹ مارکرنے والے سرکاری وغیر سرکار طبقات سے نجات دلا سکے۔
بھارت اور پاکستان کے دیگر شاطر دشمن پاکستانیوں کی اس نفسیات سے آگاہ تھے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے پاکستان کو دہشت گردی میں جھونکنے کیلئے یہاں طالبان کے نام سے دہشت گردوں کی ایسی جماعت کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا جو پاک فو ج اور پاکستان کی سلامتی پر حملوں کے باوجود پاکستانی عوام کی نظروں میں اسلام پسند اور پاکستان میں شرعی نظام کے نفاذ کیلئے لڑنے والے مجاہد نظرآئیں ۔ اس تاثر کوپختہ کرنے میں عالمی میڈیا پیش پیش رہا تو پاکستان بھی بڑی خوبصورتی سے تحریک طالبان پاکستان کو پاک فوج کی بی ٹیم قرار دیا جانے لگا کہ پاک فوج نے بھی ماضی کے اپنے ان ساتھیوں کو دہشت گرد کہنا شروع کردیا ہے ۔ اور یہی پاک فوج اور ٹی ٹی پی کے مابین اختلافات کا بنیادی سبب ہے ۔ علاوہ ازیں ٹی ٹی پی کی طرف سے پہلے سوات و مالاکنڈ اور پھر وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی اپنی کاروائیوں کو اسلامی شرعی نظام کے نفاذ سے مشروط کرنے کے طریقہ کار نے بھی عوام کو گومگو اور شش و پنج میں ڈال دیا کہ وہ پاک فوج اور ٹی ٹی پی کے درمیان کس کے موقف پر یقین کر ہیں ۔ صوبہ سرحد(خیبر پختونخواہ) میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے مذہبی سیاسی جماعتوں کے حکومتی اتحاد کیلئے بھی ممکن نہیں تھا کہ وہ نفاذ اسلام کا مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے ایمان و جان دونوں کو خطرے میں ڈالے یہی وہ دور تھا جب بھارت اور دیگر پاکستان دشمن قوتوں کی سرپرستی ، مددوتعاون سے ٹی ٹی پی والوں نے پاکستان کے قبائلی دشوار گزار پہاڑی علاقوںکو اپنی مضبوط چھائونیوں اور جدید خود کار اسلحہ و گولہ بارود کے ذخائر میں تبدیل کر دیا ۔ وہیں سے ملک کے طول و عرض میں خود کش دھماکوں و حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی جبکہ اس کا مرکزی کنٹرول سرحد پار قائم بھارتی کونسل خانوں میں بیٹھے بھارتی خفیہ ادارے کے افسران کے پاس ہوتا ۔ حیران کن طو ر پر دہشت گردوں کی طرف سے اہم دفاعی مراکز (جن سے صرف اور صرف بھارت کو خطرات لاحق تھے) پر تباہ کن حملوں ، مساجد، امام بارگاہوں ، بازاروں ، پارک و تفریح گاہوں ، ہسپتالوں ، عدالتوں ، چرچ و جنازہ گاہوں پر خود کش حملوں اور ان میں ہزاروں پاکستانیوں کی شہادت کے باوجود بہت سے پاکستانی دہشت گردی کی سفاکانہ کاروائیوں کو نفاذ اسلام کی جنگ سمجھتے رہے ۔تاہم پاکستان پر مسلط کر دہ دہشت گردی کی جنگ کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ پاک فوج ان دشوار گزار علاقوں میں دہشت گردوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گی جہاں انگریز فوج پورے برصغیر پر قبضہ کرنے کے باوجود شکست سے دوچار ہوئی ۔ ان علاقوں میں دہشت گردوں کی اصل قوت افغانستان سے ہمہ وقت ہر طرح کی حاصل ہونے والی کمک تھی۔
پاک فوج نے قبائلی علاقوں سے دہشت گردوںکو صفایا کیا ان کے ٹھکانے تباہ اور اسلحہ و گولہ بارود کے ذخائر قبضے میں لے ، پہلے ’’ضرب عضب‘‘اور پھر’’ ردالفساد‘‘ آپریشن کے ذریعے پورے ملک سے دہشت گردوں مکمل قلع قمہ کردیا گیا یہ جنگ قبائلی عوام کی معاونت اور عملی تعاون کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی تھی۔ دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی بلاخوف کاروائی کیلئے ان کا اپنے گھر بار وکاروبار چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں منتقل ہونا ایک ایسا اقدام ہے جسے تاریخ ہمیشہ یادرکھے گی ۔ اس کے بعد قبائلی علاقوں میں امن کے قیام اور بے گھر ہونے والے قبائلی عوام کی واپسی و بحالی کے علاوہ ان کے تحفظ کیلئے پاک افغان سرحد پر خاردارباڑ کی تنصیب اور سخت گربارڈر مینجمنٹ کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان آزادنہ آمد و رفت کو روکنے جیسے پاک فوج کے اقدامات نے دشمنوں کو پاگل کردیا ۔ ان کیلئے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں خود کش حملے و دہشت گردی کرانا ناممکن ہوگیا۔ دہشت گردوں اور افغانستان نیشنل آرمی نے متعدد بار سرحد پر خار دار باڑ کی تنصیب میں مصروف پاک فوج کے جوانوں و افسران پر بلااشتعال فائرنگ کی ۔ ہمارے بہت سے جوان شہید وزخمی ہوئے اس کے باوجود پاک فوج نے باڑ کی تنصیب کا کام جاری رکھا۔ دشمنوں نے قبائلی علاقوں و صوبہ خبیر پختوانخواہ میں بدامنی پھیلانے اور ملک کو انتشار میں دھکیلنے کیلئے ’’گریٹر پختوانخواہ‘‘کے مردے میں جان ڈالنے کی کوشش کی۔ پاکستان کے اندرسے چند قوم پرست لیڈروں نے صوبہ کے پی کے کو افغانوں کا علاقہ قرارد یکر فتنہ جگانے کی کوشش کی۔ افغان حکومت کے بعض وزراء نے پاک افغان سرحد کو متنازعہ بنانے کیلئے بیانات داغے ، ساتھ ہی پختون تحفظ مومنٹ کے نام سے ایک جماعت کھڑی کر کے اس کے ذریعے پاک فوج پر قبائلی علاقوں اور عوام کے وسائل و املاک پر قبضے جیسے لفوالزامات لگانے شروع کردیے ۔ انہیں صرف قبائلی علاقوں میں امن و امان اور دہشت گردوں کو روکنے کیلئے قائم کی گئی چیک پوسٹوں پر ہی اعتراض نہیں تھا۔ وہ پاک افغان سرحد پر خار دار باڑ کی تنصیب کو پختونوں کے حقوق پر ڈاکا قراردے کر اسے ہٹانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ قبائلی عوام کی طرف سے پذیرائی نہ ملنے پر پی ٹی ایم والوں نے ملک سے باہر اور پاکستان کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے خلاف الزام تراشیاورپروپیگنڈے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اسی اثناء میں قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے سے وہاں کے عوام کو آئینی حقوق ملنے کے ساتھ ہی انہیں قومی وصوبائی اسمبلی کیلئے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگیا ۔ قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو پختون تحفظ مومنٹ کے دو لیڈر محسن داوڑ اور علی وزیر بھی آزاد امیدواروں کے طور پر منتخب ہوکر قومی اسمبلی کے رکن بن گئے جہاں انہوں نے پاکستان ،پاکستان کے آئین اور پاکستان کی سلامتی کی پاسداری کرنے کا حلف تو اٹھایا لیکن ان کے اقدامات اس کے برعکس رہے۔ 26مئی 2019کو شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں چیک پوسٹ پر ان کا حملہ پرانی بات ہوچکی ہے۔ اب علی وزیر نے ایک بار پھر بنو ں کے جلسے میں پاک فوج کے خلاف ناقابل قبول دھمکی آمیز لب ولہجہ استعمال کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں علی وزیر نے کہا ہے کہ ہم پاک فوج کی طرف سے پاک افغان سرحد پر نصب کی گئی خاردار باڑ کو اکھاڑ کر پھینک دیں گے اورانہیں پاکستانی جوانوں کو لٹکانے کیلئے استعمال کریں گے ۔ بعض مبصرین کاخیال ہے کہ پی ٹی ایم کا حالیہ لب ولہجہ بھارت میں مودی کے خلاف شہریت کے متنازعہ قانون کی وجہ سے بڑھتے ہوئے احتجاج اورعالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پائی جانے والی تشویش کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش ہے جس کیلئے علی وزیر کو پاک فوج کے خلاف زہر اگلنے کیلئے استعمال کیا گیا ، وجہ کوئی بھی ہو بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کو دھمکیوں کے بعد پی ٹی ایم کا طرز عمل بلاوجہ ہرگز نہیں ہے۔
پختون تحفظ مومنٹ ایک با ر پھر سرگرم
Jan 23, 2020