پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں فوجی حکومت کی ساکھ بنانے کیلئے فیصلہ کیا گیا کہ حکومت ٹرانسپیرنٹ طریقے سے چلائی جائیگی۔ لہٰذا دو کام کئے گئے ایک تمام دفاتر کو اپنی روزمرہ کی کارروائیاں اور فیصلے ویب سائٹ پر ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ جو کہ سول بیوروکریسی کے حیلوں کی نذر ہو گیا۔ دوسرا ملک میں بے رحمانہ احتساب کا ڈول ڈالا گیا۔ اس کام کیلئے اچھی شہرت کے افسر جنرل امجد کو اسکی کمان سونپ دی گئی۔ جنرل مشرف نے انھیں ایکراس دی بورڈ احتساب کا ٹاسک دیا۔ جنرل امجد نے احتساب بیورو کے قوانین میں تبدیلی کی اور نیب کا ادارہ کھڑا کردیا۔ ابتدائی طور پر بڑے قرض دہندگان ، لینڈ مافیا، ٹیکس چوروں اور رشوت خوروں سے اربوں روپے وصول کئے گئے۔ جنرل مشرف چاہتے تھے کہ 1988ء سے لیکر 1999 کے دوران مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے سربراہان اور لیڈروں نے جو مبینہ دولت لوٹ کر ملک کے اندر اور باہر رکھی ہے اس کا کھوج لگایا جائے۔ 1999 کے ٹیک اوور کے بعد یہ ممکن نہیں تھا کہ پرویز مشرف کچھ عرصہ بعد ہی اقتدار چھوڑ کر حکومت جمہوری قوتوں کے حوالے کر دیتے۔ خود وہ اس وقت آرمی چیف تھے اور ان کی کوئی سیاسی جماعت بھی نہیں تھی۔الیکشن کی صورت میں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن جیت کر اقتدار میں آتیں اس لئے منصوبہ بندی کے تحت ان جماعتوں کے سربراہوں اور لیڈران کا احتساب شروع کیا گیا۔ منشا کے مطابق اس کا نتیجہ مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی صورت میں نکلا۔ سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے 2003 میں جنرل امجد کا انٹرویو کیا تھا۔ ( پورا انٹرویو ان کی کتاب ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ میں موجود ہے)۔ رؤف کلاسرا نے جب جنرل امجد سے پوچھا کہ یہ کیسا بلا امتیاز احتساب تھا جو ججوں ، جرنیلوں اور جرنلسٹوں کو چھوڑ کر صرف سیاستدانوں اور بیوروکریٹس تک محدود تھا اور اس کا فیصلہ کس نے کیا تھا؟ جنرل امجد کا جواب تھا کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا اور وہ چاہتے تھے کہ جج اور جرنلسٹ اپنا کام کرتے رہیں۔ رؤف بھائی نے ساتھ ہی اگلا سوال داغ دیا۔ ان جرنیلوں کا احتساب کیوں نہ ہوا جن کیخلاف رپورٹس موجود تھیں؟ جنرل امجد نے انکشاف کیا کہ جب انہیں چیئرمین نیب کے عہدے سے ہٹایا گیا تو وہ فوج کے6 بڑے افسران کیخلاف تحقیقات کر رہے تھے لیکن نام بتانے سے گریزاں رہے۔ آج سے سترہ برس قبل بھائی رؤف کلاسرا کو دیئے گئے انٹرویو کو پڑھ کر لگتا ہے کہ جنرل امجد بہت کچھ کہنا چاہتے تھے۔ وہی جنرل امجد آجایک بار پھر خبروں کا حصہ ہیں۔ انکے دور میں بطور چیئرمین نیب، 2000ء میں نواز شریف اور بے نظیر سمیت 200 افراد کی پاکستان سے لوٹی ہوئی بیرون ملک دولت کا سراغ لگانے کیلئے دو کمپنیوں براڈ شیٹ اور ایسٹ ریکوری سے معاہدہ کیا گیا۔ چند روز قبل پاکستان نے اس ناکام معاہدے کی پاداش میں براڈ شیٹ کے سی ای او کاوے موسوی کو 4 سو 58 ارب روپے کی خطیر رقم بطور جرمانہ ادا کی ہے۔ براڈ شیٹ کو نوازشریف اور دیگر سیاستدانون کی بیرون ملک ناجائز دولت ڈھونڈنے کا کام سونپا گیا تھا۔ جس وقت براڈ شیٹ کو یہ کام سونپا جارہا تھا تو اس کمپنی کو بنے ہوئے صرف چھ ماہ ہوئے تھے۔ چند ہفتے قبل ہی اس کا لندن آفس بنا تھا۔ جیسے جیسے براڈ شیٹ کی پرتیں کھل رہی ہیں۔ اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ سوچ سمجھ کریہ کمپنی بنائی گئی اور اس کا سودا پاکستان کی حکومت کو بیچا گیا۔ اب اس سارے مدعے کی تحقیقات کیلئے جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی گئی ہے جو کہ 45 دنوں میں اپنی تحقیقات مکمل کریگی(اگر سیاسی مصلحتیں آڑے نہ آئیں)۔ 2000ء میں معاہدے کے بعد براڈ شیٹ تین برس تک اپنے بنیادی کام، نواز شریف کے بیرون ملک کسی ایک اثاثے یا اکاؤنٹ کا کھوج نہ لگا سکی۔ کاوے موسوی کے مطابق جس کی ایک وجہ جنرل امجد کے بعد نیب کا عدم تعاون اورمشرف نواز ڈیل تھی۔جس کے بعد نواز شریف سعودی عرب چلے گئے تھے۔ بظاہر اس بات کا بیرون ملک کھوج سے کوئی تعلق نہیں جڑتا،یہ کاوے موسوی کا محض عذر گناہ ہے۔ البتہ وہ ایڈمرل (ر) منصورالحق کیس اورجرزی آئی لینڈ میں آفتاب شیرپاؤ کے مشکوک اکاؤنٹس کا کریڈٹ لینے کی کوشش ضرورکرتا ہے۔گھاگ کاوے موسوی سونے کی اس کان سے مزید حصہ سمیٹنا چاہتا ہے۔ 2003 میں معاہدہ ختم ہونے کے باوجود کاوے موساوی کو اس کام میں پوٹینشل نظر آیا۔ اس لئے وہ رضاکارانہ طور پرکام کرتا رہا۔ اس نے تحریک انصاف حکومت کو ایک ارب ڈالر کے مشکوک اکاؤنٹ کا دانہ ڈالا ہوا ہے جس میں وہ تاحال کامیاب نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں اختیارارت کے ناجائز استعمال اور کرپشن کے ذریعے بے پناہ دولت بنانے والوں کے فارن اکاؤنٹس کی بہتات ہے اس لئے جو بھی حکومت آتی ہے وہ احتساب کا نعرہ ضرور لگاتی ہے لیکن وہ اس کام میں سنجیدہ نہیں ہوتی۔ انکی اصل دلچسپی سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنا ہوتا ہے۔ اپنے تازہ انٹرویو میں کاوے موسوی نے کہا ہے کہ پاکستان میں احتساب ایک مذاق ہے اور وہ جوکرز کے ساتھ کام نہیں کرتا۔
براڈ شیٹ کا کاوے موساوی اور جوکرز
Jan 23, 2021