ہم وہ سادہ لوح عوام ہیں جس کو ہر آنے والا صاحبِ اختیار اپنی اپنی شہرت کے شوق میں جھانسے دے کر استعمال کرتارہتا ہے۔ اس غریب عوام کا استحصال اس کا مقدر بن چکا ہے۔ویسے تو کوئی ایک بار دھوکہ کھائے تو ٹھوکر کھا کر سنبھل جاتا ہے لیکن اگر یہ دھوکہ دینے والا نئے چہرے، نئے اندازوگفتار کے ساتھ نئی شعبدہ بازیاں لیکر آجائے تو بے چارے عوام بھی بھلا کیا کریں۔ ہرروز ہر نئے شخص سے دھوکہ کھانا ان کا مقدر بن چکا ہے لیکن دھوکہ دینے والوں کی دکان بھی اسی صورت چمکے گی جب وہ اپنی شعبدہ بازی میں کامیاب رہ کر عوام کو نئے ا?ئیڈیاز کے تحت استعمال کرتا رہے گا۔
آدمی جان کرکھاتا ہے محبت میں فریب
خودفریبی ہی محبت کا صلہ ہوجیسے
احتساب عدالت میں سابق چیف جسٹس سے ارشد ملک کیس کے حوالے سے بھی سوالات کئے گئے۔ ارشد ملک کے کیس سے ہر کوئی واقف ہوگا جس کی ایک ویڈیو لیک ہوئی جو کہ آج بھی ن لیگ کے پاس محفوظ ہے۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک جج پر دبائو ڈالا گیا تھا کہ نوازشریف کو14-15سال قید کی سزاسنائی جائے۔ خیر ان باتوں کی گہرائی میں جانا اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ میرا موضوع تو آپ اور ہم ہیں۔ مجھے وہ دن یاد ہیں جب ثاقب نثار ایک ہیرو کی طرح عوام میں مقبول ہوئے۔ہرروز مختلف جگہوںکے دورے اور میڈیا پر ہرروز اْن کے ایک نئے کارنامے کی خبریں چلا کرتی تھیں۔ آتے ہی پہلے کاموں میں یا پہلی فرصت میں اْنہوں نے لاہور میں پانی کی سپلائی کو انتہائی محدود کردیا جس کی سزا آج بھی لاہورئیے بھگت رہے ہیں۔ پانی کی کمی کا سامنا تھا اور ہے لیکن اْس کو پورا کرنے کے لئے موصوف ایسا قانون بنا گئے کہ چوبیس گھنٹوں میں کہیں ایک آدھے گھنٹے کیلئے پانی دستیاب ہوتا ہے اور کہیں یہ سہولت بھی نہ تھی۔ دوسرا اہم کام ڈیم فنڈ اکٹھا کرنے کیلئے ہوا۔ ہائے بے چاری سادہ لوح عوام ایک دفعہ پھر لٹ گئے اور ازلی فطرت سے مجبورہوکر لفظوں کادھوکہ کھا ک بنکوں میں پیسے جمع کروانے پہنچ گئی۔ اب اس جمع شدہ رقم کا درست تخمینہ تو حاکمان شہر کو ہی ہوگا لیکن یہ رقم گئی کہاں،کس کے ہاتھوں میں گئی اور کہاں خرچ ہوگئی یہ راز حکومت کے خزانوں میں ہی کہیں دفن ہوکر رہ گیا۔ اسرار تو بہت سے ہیں جو کبھی نہیں کھلے اسی طرح یہ اسرار بھی پراسرار ہی رہا۔مجھے ثاقب نثار کا وہ بیان آج بھی یاد ہے اور آپ کو بھی ہوگا کہ میں ڈیم فنڈ کیلئے سب سے پہلے وہ خود کپڑا بچھا کر فنڈ جمع کریں۔
تیرے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
آج کسی کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ وہ ہیرو کہاں غائب ہوگئے، ملک میں ہیں یا بیرون ملک سدھار گئے، ڈیم کا کیا بنا اور ڈیم کے پیسے کس کنوئیں میں جاگرے۔ اْصولاً تو ان کو سامنے آخر ان سب باتوں کا جواب خود دینا چاہئے تھا۔ ادھر بجلی کا شعبہ جس سنگین بحران سے دوچار ہے اس کا تازہ ترین مظاہرہ پوری عوام نے چند روز قبل دیکھ ہی لیا ہے جبکہ ہر آئے دن بجلی کی بڑھتی قیمتیں عوام پر بجلیاں گراتی رہتی ہیں۔ معاشی بحران دن بدن خراب تر صورت حال اختیار کرتا جارہا ہے۔ اصل وجہ روزافزوں گردشی قرضے یعنی سرکاری اداروں پر بھی بجلی پیدا کرنے والے ملکی اور غیر ملکی نجی کمپنیوں کی واجب الاداء رقوم ہیں۔ نومبر2020ء تک پاکستان میں پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کا حجم 2306ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ بجلی چوری، اداروں کو بروقت واجبات کا ادا نہ کرنا اور توانائی کے شعبے میں حکومت کی ناقض ترین کارکردگی سرفہرست ہیں۔
دو عشروں سے گردشی قرضوں تلے دبا ہوا۔ آج ان گردشی قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم کا اندازہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت سے بھی کرلیجئے۔ مجھے کسی کاتیارکردہ ملک کا قرضہ ادا کرنے کا ایک فارمولا بہت پسند آیا ہے کہ 2008ء سے2013تک کا قرضہ پی پی پی ادا کرے، 2013ء سے2018ء تک کا ن لیگ ادا کرے اور 2018ء سے2023ء تک کا قرضہ انصافی ادا کریں۔ نعرے لگانے والے اپنے اپنے حکمرانوں کا لیا ہوا قرضہ اْتاردیں۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔
اگر اعتبارہوتا
Jan 23, 2021