وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ روپیہ گرنے سے مہنگائی ہوتی ہے، عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو ہمیں بھی قیمت بڑھانا پڑتی ہے۔ ملک پر مزید قرضہ نہیں چڑھا سکتے اس لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے ایک اجلاس بھی کیا ہے۔ اجلاس میں وزیراعظم کو مہنگائی کے حوالے سے اعدادوشمار بھی پیش کیے گئے ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے یہ اضافہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہوا ہے۔ یہ تمام خبریں ایک ہی دن کی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا بجلی اور پیٹرول مہنگا کرنے کے حوالے سے بیان درست ہے۔ عالمی منڈی میں پیٹرول مہنگا ہوتا ہے حکومت پاکستان اس لیے پیٹرول مہنگا کر دیتی ہے۔ یہ پیمانہ مقرر ہے اور سب اس پر عمل کرتے ہیں دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔ مان لیں کہ حکومت نہ چاہے تب بھی پیٹرول مہنگا کرنا پڑے گا۔ یہ بھی مان لیں حکومت کی مجبوری ہے لیکن جن لوگوں نے پیٹرول استعمال کرنا ہے اگر ان کی قوت خرید بڑھانا کس کی ذمہ داری ہے، کیا حکومت کی صرف یہی ذمہ داری ہے کہ عالمی منڈی کے سامنے ہتھیار ڈال دے اور خود ایک طرف ہو جائے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتی، اگر حکومت عالمی منڈی میں بڑھنے والی قیمتوں کے سامنے بے بس ہے لیکن اپنے لوگوں کی بے بسی ختم کرنا تو حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بجلی کی قیمتیں بڑھ گئیں حکومت کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ حکومت ایسا نہ کرے تو ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ یعنی حکومت یہاں بھی بے بس ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ حکومت ہمیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں واپس لے جائے نہ پیٹرول ہر شخص کی ضرورت رہے نہ بجلی کا استعمال ہر شخص کے لیے لازمی ہو۔ لوگ تانگوں، سائیکلوں پر سفر کریں یا پھر زیادہ سے زیادہ پیدل چلیں گے حکومت پر بھی تنقید کم ہو گی اور لوگوں کی زندگی بھی آسان ہو جائے گی۔عالمی مارکیٹ پر بھی بوجھ کم ہو گا اور حکومت کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔ یہی حالات بجلی کے ہیں حکومت ہمیں پانچ دہائیاں پیچھے لے جائے بلاوجہ سب کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔ نہ ہم بجلی استعمال کریں نہ بجلی کا بل آئے نہ مہنگائی ہو ہمیں اس مستقل عذاب سے ہی نجات مل جائے۔ لوگ لکڑیا ںجلائیں، سورج کے ساتھ جاگیں، سورج کے ساتھ سوئیں، درختوں کی چھاؤں میں چارپائیاں لگائیں، برگد کے درخت کے نیچے خیمے لگائیں، لکڑیاں جلا کر کھانا پکائیں۔ اس منحوس بجلی کے عذاب سے نکلیں۔ حکومت اگر یہ انقلابی کام کر لیتی ہے تو پھر کئی مسائل اپنی موت آپ ہی مر جائیں گے۔ عام آدمی ان انقلابی فیصلوں پر حکومت کی تعریف بھی کرے گا اور احتجاجی مظاہروں میں بھی کمی واقع ہو جائے گی۔ عوامی مسائل کم ہوں گے تو حکومت کو ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے کا موقع ملے گا یوں ملک میں ترقی کی رفتار تیز ہو جائے گی۔ کیونکہ حکومت بے بس ہے کہیں وہ عالمی منڈی کے سامنے بے بس ہے تو کہیں قرضوں کے بوجھ کے سامنے بے بس ہے۔ حکومت مافیاز کے سامنے بے بس ہے وہ سوا دو سال میں مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کر سکی اگر سوا دو سال میں حکومت مہنگائی کم نہیں کر سکی تو پھر یہ طے ہے کہ وہ آئندہ دو برسوں میں بھی یہ کام نہیں کر سکے گی اس لیے اب بہتر ہے کہ حکومت اپنی توانائیاں مہنگائی کم کرنے پر صرف کرنے کے بجائے عام آدمی کی آمدن بڑھانے پر کام کرے۔ مہنگائی جہاں تک پہنچ چکی ہے یہ اب کم نہیں ہو گی، اشیائے خوردونوش کی قیمتیں جہاں پہنچ چکی ہیں یہ اب نیچے نہیں آئیں گی اس لیے حکومت کے پاس عام آدمی کی آمدن بڑھانے پر کام کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر حکومت یہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو آمدن و اخراجات میں توازن قائم ہو سکتا ہے۔ اس لیے اب حکومت عام آدمی کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو اس کی آمدن بڑھائے۔ بدقسمتی سے پاکستان تحریکِ انصاف کے دور حکومت میں نہ تو روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں نہ آمدن میں اضافہ ہوا ہے البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ بیروزگاری بڑھی ہے اور عام آدمی آمدن میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ قوت خرید کم ہونے سے عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ حکومت رمضان المبارک کے پیش نظر ابھی سے اشیائے خوردونوش کی بلاتعطل فراہمی کے لیے ابھی سے کام کرے۔ رمضان المبارک کے دوران لیموں، کھجوریں، بیسن، میدہ، پھل، سبزیوں کا استعمال بڑھ جاتا ہے موسم کے لحاظ سے ان تمام اشیاء کی مناسب قیمتوں اور بلا تعطل فراہمی کے لیے منصوبہ بندی کرے۔ ایک طرف حقیقی مہنگائی ہے اور اگر حکومت غیر حقیقی مہنگائی کو روکنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ بھی بڑی کامیابی ہے۔
وزراء غیر حقیقی مہنگائی کو روکنے کے لیے فیلڈ میں نکلیں تو تھوڑے وقت کے لیے ہی صحیح لیکن فرق پڑ سکتا ہے۔ گذشتہ روز بھی متعلقہ وزراء نے وزیراعظم کو جو اعدادوشمار پیش کیے ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ یہ وزراء خود کچھ جانتے ہیں نہ یہ اعدادوشمار خود تیار کرتے ہیں سب کاغذی کارروائی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ وزیراعظم ان وزراء کو آمدن بڑھانے کے لیے کام کرنے کا ہدف دیں۔
وفاقی وزیر فواد چودھری کہتے ہیں کہ ہم نے الخالد ٹینک تو بنا لیا لیکن اپنی گاڑی نہیں بنا سکے یہ ناکامی سول ملٹری تعلقات میں خرابی کی وجہ سے ہے۔ بات تو سچ ہے ہم لکھتے تو بہت سے لوگوں کو برا لگتا ہے حقیقت یہی ہے فوج اپنا کام کرتی ہے۔ ہم نے ایٹمی طاقت حاصل کی، میزائل ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کیا۔ ہم اپنے ہتھیار خود تیار کرتے ہیں لیکن گاڑیاں نہیں بنا سکے۔ یہاں ساری ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ آج تک اہلیت ایمانداری کے اس اعلیٰ معیار پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جہاں جا کر کوئی بھی شخص ملک کی خدمت بارے سوچنا شروع کرتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں کمی قابلیت اور ایمانداری کی ہے ہماری ناکامیوں کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ جب تک ہمارے سیاستدان ایمانداری کو بنیادی شرط نہیں بنائیں گے ہم ٹینک تو بناتے رہیں گے لیکن دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے دور میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ فواد چودھری پر بہت لوگ تنقید کرتے ہیں ان کی سیاسی وابستگیوں کے حوالے سے لوگ ہدف تنقید بناتے ہیں لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ وہ جہاں جاتے ہیں اپنی جگہ بناتے ہیں اور کارکردگی سے ہی اعتماد حاصل کرتے ہیں۔ ان کی حالیہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو ہی دیکھ لیں یہ وزارت کبھی اتنی اہم نہیں سمجھی گئی جتنی ان دنوں سمجھی جا رہی ہے۔ یہ فواد چودھری کی محنت کا نتیجہ ہے ورنہ تو حکومت میں کئی ایسے وزراء بھی شامل ہیں کہ مختصر دور حکومت میں تین تین وزارتیں بدل چکے ہیں لیکن کوئی نہ تو وزیروں کو جانتا ہے نہ ان کی وزارتوں سے واقف ہے۔ کئی ایسے وزیر بھی ہیں جنہیں آٹھ دس بارہ وزراتیں چلانے کا زعم ہے لیکن ان کے کھاتے میں شاید ہی کوئی تعمیری کام نظر آ سکے۔ اسی طرح وزیر ہوا بازی غلام سرور خان ہیں ان کی کارکردگی بھی دنیا کے سامنے ہیں۔ ناکامیوں کی شرمناک داستان لیے ہوئے ہیں۔ ایک طرف فواد چودھری کی وزارت ہے تو دوسری طرف غلام سرور خان ہیں ہوا بازی کے وزیر سب کچھ تباہ کر کے بھی اپنی جگہ قائم ہیں اور وہ کوئی غلطی تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے تو انہیں وزیر تباہی کی اضافی ذمہ داری دی جانی چاہیے۔ فواد چودھری ان سب سے تو بہتر ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ اتحادی جماعتوں کو تحریکِ عدم اعتماد پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے حکومت کی تبدیلی یا خاتمے کے لیے آئینی و قانونی طریقہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری آگے آگے چلیں گے اور میاں نواز شریف کی نون لیگ ان کے پیچھے پیچھے چلتی رہے گی۔ دونوں جماعتوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ایک آگے چلے اور دوسری اس کا پیچھا کرے کیونکہ دونوں کا طرز سیاست مختلف ہے۔ اتفاق رائے ہونا مشکل ہے۔ بس دونوں ایسے ہی وقت گذاریں گے۔ بلاول بھٹو کو پہلے بھی احساس تھا اب یقین ہو چلا ہے کہ جلسوں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے اس لیے انہوں نے ساتھیوں کو مشورہ دیا ہے کہ پارلیمنٹ میں آئیں وہیں سے کچھ ہو گا اگر نہ بھی ہوا تو ایک مرتبہ پھر انتخابات تو ہو ہی جائیں گے۔ رہی بات مولانا فضل الرحمٰن کی تو انکی کسی کو فکر ہے نہ پریشانی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ مولانا کی ضرورت اور مجبوری کیا ہے۔ ان کی دیگ میں کچھ حلوہ اور دیگر سامان رکھ دیا گیا تو وہ خوش ہو جائیں گے لیکن سامان ڈالنے والے ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی بات سنیں یا وہ سننا نہیں چاہتے اور مولانا بھی بضد ہیں کہ فوری ان کا حصہ دیا جائے۔ جس دن حصہ طے پا گیا معاملات ٹھیک ہو جائیں گے مولانا کا سافٹ ویئر اپڈیٹ ہو جائے گا۔
لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت دشمن ہمسایہ ملک کی بے چینی اور شدت پسندی کا اظہار ہے۔ دشمن پاکستان کی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا کوئی عمل ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ پاکستان کے فوجی جوان مادر وطن کے دفاع کی خاطر قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر رہے ہیں اور زخمی بھی ہو رہے ہیں قوم اپنے محافظوں کی قدر کرتی ہے اور قوم اپنے محافظوں کی مقروض بھی ہے۔ اللہ اس ملک کو تاقیامت قائم و دائم رکھے اور افواجِ پاکستان کو ملک و قوم کی خدمت کرنے اور عالم اسلام کے لیے کام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین