زندگی کی کٹھنائیوں، تنہائیوں ، بے اعتنائیوں کو دیانت جہد مسلسل ، عمل پیہم، اولالعزمی سے رعنائیوں اور زیبائیوں میں بدلا جا سکتا ہے۔ میرے محترم اور دوست مجید نظامی کی زندگی بھی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ وہ سونے کا چمچ لے کے پیدا نہیں ہوئے تھے ، ان کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا تاہم انہوں محنت و جانفشانی سے کام لیا ، دیانتداری کا دامن بہرصورت تھامے رکھا جس کی بدولت وہ اپنے مقصد میں کامیاب اور پیشے میں نامور ہوئے۔ کسی فلسفی اور دانشور نے کہا تھا انسان دنیا میں غریب آتا ہے تو اس میں اس کا کوئی قصورنہیں ، البتہ اس کے غریب ہی مرنے میں اس کا ضرور قصور ہے۔ امارت دھن دولت کے حصول کو کہا جا سکتا ہے ، علم و فضل اور شہرت امارت کے زمرے میں آ سکتے ہیں ، اطمینان قلب کو امیری میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ جس کے حصے میں بیک وقت یہ سب کچھ آ جائے اس کے امیر ہونے میں تو شبہ نہیں رہ جاتا…چند باتیں ایسی ہیں جو مجھے ہمیشہ بڑی صراحت کے ساتھ یاد رہتی ہیں۔ چند واقعات ، چند تجربات ، چند خیالات جو کبھی مدھم نہیں پڑتے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
میرا جنم متوسط طبقے کے ایک گھرانے میں ہوا۔ میرے والد ، منظور حسن خان ، حکومت ہندوستان کے لئے دہلی میں شعبہ سیاسیات میں ایک اسسٹنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ میری والدہ ، اصغری خانم ، ایک خاتونِ خانہ تھیں۔ میری عمر صرف آٹھ سال تھی جب ، 1945ء میں ، میں اپنی والدہ کے سایہ شفقت سے محروم ہو گیا۔ قریباً ایک سال بعد ، میرے والد بھی چل بسے۔ اس کے آٹھ ماہ بعد ، 14 اگست 1947ء کے روز پاکستان وجود میں آ گیا۔
یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ میرا بچپن آسان نہیں تھا لیکن میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ یہ بہت سخت تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مجھے حوصلہ بخشا کہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکوں۔ اپنے حالات کے باوجود میں تعلیم حاصل کرنے سے بازنہ رہا۔ میں مٹی کے تیل کی لالٹین کی روشنی میں پڑھا کرتا تھا کیونکہ گھر میں بجلی نہ تھی۔ اس سے قطع نظر ، میری خوش بختی میں کوئی کلام نہیں۔ میری تمنا تھی کہ وکیل بنوں جو کہ اللہ بزرگ و برتر کی عنایت سے پوری ہوئی۔ دس بارہ سال کی عمر سے ہی میں نے پیسہ کمانے کے راستے ڈھونڈنا شروع کر دئیے تھے: کنڈر گارٹن کے بچوں کے لئے جزووقتی ٹیوشن ، مددگار ، فی پروگرام سات روپے کے معاوضے پر ریڈیو پاکستان لاہور میں منعقد ہونے والے سکول کے پروگراموں میں شرکت ، استقبالیہ کارکن اور افسر برائے تعلقاتِ عامہ۔ میں نے ہر وہ کام کیا جو مجھے ملا۔
بی اے کاامتحان دینے کے بعد ملازمت حاصل کرنے کی میری پہلی کوشش یادگار رہی۔ اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کے دفتر میں اکائونٹس اسسٹنٹ کی چند آسامیاں نکلی تھیں۔میں نے اس سلسلے میں اکائونٹنٹ جنرل سے ملاقات کی اور اپنے کالج کے پرنسپل کی طرف سے ایک تعارفی خط پیش کیا۔ خط پڑھنے کے بعد انہوں نے اسے ہوا میں اچھا دیا اور کہا ہے ’’اپنے پرنسپل کے خط پر تم کوئی ملازمت پانے کے حقدار نہیں ہو۔‘‘ میں دم بخود رہ گیا۔ وہاں سے جانے ہی والا تھا کہ انہوں نے مجھے بلایا اور کہا۔ ’’تمہارے پرنسپل صاحب کہتے ہیں کہ تم بہت سمجھدار اور سنجیدہ ہو۔ سمجھداری اور سنجیدگی چالیس سال کی عمر کے بعد آتی ہے۔ اس عمر میں تمہیں شریر ہونا چاہئے۔ تم اتنے سمجھدار اور سنجیدہ کیوں ہو؟ ‘‘ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دے سکتا انہوں نے کہا۔ ’’نوجوان! میں تمہارے سر پر تاج دیکھ رہا ہوں‘ تم کلرکی کرنے کیلئے پیدا نہیں ہوئے۔ تم زندگی میں یقیناً اونچے عہدوں تک پہنچو گے۔ میں کلرک کی معمولی سی ملازمت دے کر تمہارا بائیوڈیٹا خراب نہیں کروں گا لیکن میرا مشورہ ہے کہ اپنی جزوقتی ملازمتیں جاری رکھنا۔‘‘
لاہور کے یونیورسٹی لاء کالج سے گریجوایشن کرنے کے بعد میری تعلیم اختتام کو پہنچ گئی۔ میں ہمیشہ سے امریکہ یا برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن حالات نے اجازت نہ دی۔ تاہم میں نے ہمیشہ محنت اور لگن سے کام کیا۔ نتیجتاً مجھے اعلیٰ عہدے نصیب ہوئے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان‘ جج لاہور ہائیکورٹ‘ سیکرٹری حکومت پاکستان برائے وزارت قانون‘ انصاف اور پارلیمانی امور‘ جج سپریم کورٹ آف پاکستان‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ‘ چیف جسٹس آف پاکستان‘ قائم مقام صدر پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان۔
سکول اور کالج میں مجھے یکساں مقبولیت حاصل تھی ‘ مجھے سکول سٹوڈنٹس یونین کا صدر اور گورنمنٹ کالج کی یونین کاجنرل سیکرٹری چنا گیا۔ جب میں چیف جسٹس آف پاکستان تھا تو مجھے اسی کالج میں کانووکیشن سے خطاب کرنے کا اعزاز ملا جہاں میں پڑھا تھا۔ مجھے آغا خان یونیورسٹی کراچی کے کانووکیشن سے بھی خطاب کا موقع ملا۔ 2001ء میں مجھے تحریک پاکستان کے کارکنان کے ایک اجتماع سے خطاب کرنے کا اعزاز بھی ملا جس کا اہتمام پاکستان ورکرز ٹرسٹ موومنٹ نے کیا تھا اور میں نے کارکنان میں طلائی تمغے بھی تقسیم کئے۔ میں نے نومبر 2000ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کی صدارت بھی کی۔ چین کے نیشنل جوڈیشل کالج نے ستمبر 2001ء میں مجھے کالج کی اعزازی پروفیسر شپ عطا کی۔
ہمت‘ عقیدے کی پختگی اور عوام اور جمہوری اداروں کے حقوق کے دفاع میں آواز اٹھانے کے معاملے میں خودمختاری کے حوالے سے میں ہمیشہ امام صحافت مجید نظامی ‘ چیف ایڈیٹر اور پبلشر نوائے وقت آف پبلی کیشنز کا مداح رہا ہوں۔ انہوں نے ملک میں لگائے جانے والے ہر مارشل لاء کی کڑی مخالفت کی اور بڑی دلیری سے تمام فوجی آمروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے پس منظر میں انہی کا بے باکانہ کردار ہے‘ وزیراعظم نوازشریف بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں تذبذب کا شکار بلکہ ایک حلقے کی رائے کے مطابق یرغمال بن چکے تھے جو صدر بل کلنٹن کی اربوں ڈالر کی پیشکش قبول کرنے پر زور دے رہا تھا ۔اس موقع پر مجید نظامی نے انہیں قوم کے جذبات سے آگاہ کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ دھماکے کردیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردیگی۔ اسکے بعد نوازشریف نے دھماکے کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کی۔ قوم کیلئے ایسی خدمات پر نظامی صاحب کو اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان پاکستان سے نوازا گیا۔ کاش وہ آج زندہ ہوتے تو آپس میں دست و گریباں سیاستدانوں کو قائل کرتے کہ قوم کو درپیش سنگین بحران کے حوالے سے دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔ بھارتی معاندانہ اور جارحانہ رویئے دھمکیوں اور جنگ کی تیاریوں کا تقاضہ ہے کہ پوری قوم خصوصاً سیاستدان اختلافات سے بالاتر ہوکر کم از کم بھارت کے حوالے سے یکجا ہوجائیں۔نوجوان نسل کیلئے میرا پیغام یہ ہے کہ انہیں اپنے فرائض دلیری ‘ دیانتداری ‘ خوداعتمادی‘ صبروتحمل اور ملک کے مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ادا کرنے چاہئیں۔ چیلنج اور بحران دیکھ کر آپ کو گھبرانا نہیں چاہئے۔ ہمیشہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر اعتماد رکھئے‘ ہمیشہ محنت کیجئے‘ ہمیشہ پراعتماد رہئے‘ اپنی آرائ‘ دیانتداری اور منطق پر اسوار کیجئے اور ہمیشہ قرآن پاک کے الفاظ اور نبی کریمؐ کی سنت میں رہنمائی تلاش کیجئے۔ آپ ہمیشہ کامیاب رہیں گے اور اس سے بڑی بات یہ کہ خوش رہیں گے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک اہم موڑ کی حقیقی داستان…میری سوانح عمری…’’ارشاد نامہ‘‘ مارکیٹ میں آ گیا ہے۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ میں ظفر علی شاہ کیس کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے ، قارئین پر واضح ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اب یہ اُس پرمنحصر ہے کہ وہ خدا داد صلاحیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ میں یہ ساری تفصیل آ گئی ہے کہ ذاتی زندگی میں کس طرح ناممکن کو ممکن اورمایوسی کو اُمید میں بدلا گیا۔ ناشرین فیروز سنز نے کتاب کو خوب صورت انداز میں پیش کرنے کے لئے قابلِ داد محنت کی ہے۔