واشنگٹن (نیٹ نیوز) ڈونلڈ ٹرمپ کو اس صدر کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جن کا ایک نہیں بلکہ دو بار مواخذہ کیا گیا۔ انہوں نے صدر بائیڈن کے انتخاب کی تصدیق کے موقع پر اپنے حامیوں کو احتجاج کرنے کے لیے واشنگٹن طلب کیا۔ ان سے کہا کہ وہ صرف زور بازو پر اپنے ملک پر کنٹرول حاصل کر سکیں گے اور جب ان کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا تو وہ کھڑے دیکھتے رہے اور امریکہ کی آئینی حکومت کے کام میں مداخلت کی۔ جب تاریخ دان اس صدارت کے بارے میں لکھیں گے تو وہ واشنگٹن میں ہونے والے فساد کے زاویے سے لکھیں گے۔ وہ آلٹ رائٹ کے ساتھ ٹرمپ کے رشتے، 2017 میں شارلٹسول میں ہونے والے احتجاج، دائیں بازو کی پر تشدد شدت پسندی میں اضافے اور سازشی بیانیے کے پھیلاؤ پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی کے صدور کی طرح عزت اور فراخ دلی کے ساتھ اور پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنایا ہوتا تو شاید انہیں ایک خلل ڈالنے والے لیکن اہم عوامی لیڈر کے طور پر یاد کیا جاتا۔ ایک ایسا صدر جس نے وبا سے پہلے اقتصادی بہتری کے دن دکھائے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تعلق کو نئی سمت دی۔ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی۔ امریکہ کے خلائی پروگرام میں جدت لائے۔ امریکی سپریم کورٹ کی سمت کا تعین کیا اور آپریشن وارپ سپیڈ کی سربراہی کی تاکہ کووڈ کے خلاف ویکسین ریکارڈ وقت میں تیار ہو سکے۔ لارا بیلمونٹ ورجنیا تاریخ کی پروفیسر اور ٹیک کالج آف لبرل آرٹس اینڈ ہیومن سائنسس کی سربراہ ہیں۔ وہ ثقافتی سفارتکاری سے متعلق کتابوں کی مصنف بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ان کی کلیدی میراث امریکہ کی عالمی قیادت سے دستبرداری کی کوشش اور اس کی جگہ اندر کی طرف دیکھنے والی ذہنیت تھی۔ مجھے نہیں لگتا وہ اس میں کامیاب ہوئے لیکن سوال یہ ہے کہ اس رویے سے امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ کس حد تک متاثر ہوئی ہے۔ اس کا جواب وقت کے ساتھ ہی واضح ہو گا۔ صدر ٹرمپ، ریپبلکن پارٹی میں ان کے حامیوں اور قدامت پسند میڈیا نے امریکی جمہوریت کو ایسے امتحان میں ڈال دیا ہے، جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ جب ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے چند ہی دن بعد کیلی این کانوے نے اوباما اور ٹرمپ کی حلف برداری پر آنے والے لوگوں کی تعداد کی بات کرتے ہوئے ’متبادل حقائق‘ کا ذکر کیا۔ بیسویں صدی میں صدر نے پالیسیوں اور واقعات کو مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے کئی حربے استعمال کیے اور میڈیا کی طرف سے جاری ہونے والے بیانیے کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کہنا کہ حکومت کو ’متبادل حقائق‘ پیش کرنے کا حق ہے اس سے کہیں آگے جاتا ہے۔ اور یہ اس بات کا بھی اشارہ تھا کہ صدر ٹرمپ غلط بیانی کے ذریعے ہی حکومت کرنے والے تھے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کی طاقت کا بھی مؤثر انداز میں اس طرح استعمال کیا کہ سیاست اور تفریح کے درمیان فرق دھندلا پڑ گیا اور وہ براہ راست اپنے حامیوں سے مخاطب ہو سکے۔سپیکر امریکی ایوان نمائندگان سابق صدر ٹرمپ کے مواخذے کیلئے پیر کو آرٹیکل سینٹ کو بھیجیں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے صدر ہیں جن کا دوسری بار مواخذہ کیا جائے گا۔ سینٹ اکثریتی لیڈر چک شومر کے مطابق یہ ایک مکمل اور منصفانہ ٹرائل ہو گا۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ صدارت سے ہٹنے کے بعد مواخذے کا سامنا کرنے والے بھی پہلے صدر ہیں۔
تاریخ میں یاد رکھا جائیگا: ٹرمپ کا دو بار مواخذہ‘ حامیوں کو واشنگٹن بلا کر احتجاج کرایا
Jan 23, 2021