لاہور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ زندہ دل لوگوں کاشہر ہے۔ یہاںکی تاریخ بہت پرانی ہے اور تاریخی عمارات بھی قابل دید ہیں۔رئیس شہر دعوے دار ہے کہ اسکی موجودگی میں شہر زندہ دلوں کے شہر کوحسین نہیں بلکہ حسین تر بنایاجارہا ہے۔تاہم ذیل میں کچھ چیزوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو انتہائی قابل ذکر ہے اور قابل توجہ ہیں۔لاہور کو مزید خوبصورت بنانے کیلئے باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے جس کا آغاز داخلی وخارجی راستوں سے ہوتا ہے لیکن اعلانات کے باوجود اس بار داخلی،خارجی راستوں کی آرائش ہوئی نہ ہی تجاوزات کا خاتمہ ہوا۔ اس طرح سوہنا لاہور مہم دم توڑنے لگی۔لگ بھگ دو برس بیت گئے اور داخلی خارجی راستوں کی تزئین وآرائش نہیں ہوسکی۔ اس طرح شہر بھر سے تجاوزات بھی ہٹائی نہیں جاسکیں اس وجہ سے ٹریفک بے ہنگم ہوگئی ہے۔ شہر میں لگے بل بورڈ زبھی شہر کا حسن تباہ کررہے ہیں۔ پیچ ورک،فٹ پاتھ،سٹریٹ لائٹس یہ صرف کاغذی حد تک محدود ہے۔شہر لاہور میں آوارہ کتوں کی بھی بھرما ر ہے اور انکی نسل کشی مہم میٹروپولیٹن کارپوریشن کیلئے سردرد بنی ہوئی ہے۔ یہ آوارہ کتے شہریوں کیلئے خطرناک ہیںاوران کونہ توپکڑا گیانہ ہی انکی نسل کشی کی گئی۔حیف صد حیف ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے سکواڈ بھی کچھ نہ کرپایا۔اس طرح انتظامیہ کے دعوے دھرے کے دھرے ہیں۔اورتواورشہر بھر میں نوے ہزار بھینسیں ہیں اور انتظامیہ ا ن کاانخلا نہیں کرپائی ہے۔اس سلسلے میں سرکاری کیٹل فارموں پر بھی کام رکا ہوا ہے اورلگ بھگ دو برس ہوچکے ہیں۔شہری علاقوں میںمویشیوں کے انخلا کیلئے دی گئی درجنوں ڈیڈ لائنز کام نہیں آئی ہیں اورکہیں نہ کہیں پر کسی نہ کسی وجہ سے جھول ہے جس پر توجہ نہیں دی جارہی۔شہری زندگی کی تہذیبی داستان قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے کیونکہ شہری زندگی کی تہذیب کے تصورات کو آج کے عہد میں چکا چوند ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے منسلک کرکے دیکھا جانے لگا ہے اس انحطاط میں ہمارے مقتدر ادارے، اہل سیاست، بیوروکریسی، کارپوریٹ کلچر، سرمایہ داروں اور پراپرٹی ڈیلروں سمیت سبھی بالا دست طبقات کے دست برد برابر کے شریک ہیں۔ عملاً سبھی شہر دو حصوں میں منقسم ہیں ایک طبقہء اعلی کا اور دوسرا حصہ وہ جس میں خلق خدا ذلت آمیز زندگی گزارتی ہے اور جو بے گناہی کے جرم میں زندگانی کا سزا کاٹ رہے ہیں۔ جہاں تہذیب اور تہذیبی سرگرمیوں کی عملداری ہو وہاں شائستگی و وضعداری پروان چڑھتی اور آزادی افکار جنم لیتی ہے۔ علم، ادب، ادبی محافل، تنقیدی بصیرت، تعمیری سوچ، فنون لطیفہ کا عروج، موسیقی و مصوری کا فروغ اور خور و نوش کے تکلفات ہر تہذیب و ثقافت کی جان، عمدہ ذوق کی پہچان ہوا کرتے ہیں لیکن ان سبھی کو ہمارے ہاںممنوعہ باتوں میں شمار کیا جاتا ہے لہٰذا تہذیبی وراثت کی پامالی اور رخصتی کے بعد اب اگر ہمارے شہر اور شہری زندگی دونوں ہی اپنے تہذیبی و ثقافتی حوالوں سے بانجھ پن کا شکار ہو رہے۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنے مخصوص سیاسی مفادات کے حصول کیلئے دیہی ترقی کے بلند بانگ دعوے کئے ان غریب عوام کی ہمدردیاں اور ووٹ حاصل کئے اور پھر انہیں یکسر فراموش کردیا جس سے دیہی ترقی کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ ملک میں فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ ہوجائے تو کاشتکاروں کی اجناس زبردستی حاصل کرلی جاتی ہے۔ ملک کے خزانے کو بھرنا ہو تو زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی مشینری پر ٹیکسوں کی رقم میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ کسان اجناس کی فروخت کیلئے منڈی جاتا ہے تو مارکیٹ کمیٹی کی فیس میں کئی بار اضافے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دریاؤں میں سیلاب آجائے تو شہری علاقوں کو بچانے کیلئے حفاظتی بند توڑ کر کھیتوں اور دیہاتوں کو سمندر میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ جو قیمتی انسانی جانوں فصلوں ‘ باغات، جانوروں اور مکانات کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ حکومت ان سارے نقصانات کے ازالے کے بلندو بانگ دعوے کرتی ہے لیکن بے چار ے کاشتکار کو کچھ نہیں ملتا۔پاکستان کے بڑے شہروں میں میت کو گھر سے قبرستان تک پہنچانا اکثر اوقات زیادہ تکلیف دہ تجربہ ثابت ہوتا ہے۔میت کو غسل دینے کا انتظام، کفن و تابوت، قبر کی جگہ خریدنا اور پھر میت کو تیار کر کے جنازہ گاہ اور وہاں سے قبرستان تک اسکی ترسیل، سب کا بندوبست مرنے والے کے لواحقین کو سوگواری سے بھی شاید پہلے کرنا پڑتا ہے۔متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ ان تمام مراحل سے متعلقہ اخراجات اور لوازمات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ نجی سوسائٹیز میں تدفین کیلئے تو من مانے پیسے وصول کئے ہی جاتے ہیں لیکن شہر کے سرکاری قبرستانوں کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں رہے۔ ستم بالائے ستم لگتا ہے کہ بے حسی بڑھتی ہی جارہی ہے اور لوگوں کے دلوں میں احساس نام کی چیز ختم ہوتی جارہی ہے۔ہمیں ان مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رئیس شہر کوزندہ دلی کا ثبوت دینا ہے کہ لاہور کے باسی اپنی مدد آپ کے تحت ہر مسئلے کوحل کرسکتے ہیں اور مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ تے اوراس قسم کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے ہیں۔ہم نے اپنے شہر کوواقعی حسین نہیں بلکہ حسین تر بنانا ہے۔