لاہور اتنا خوبصورت ہے ، اتنا خوبصورت ہے کہ کےا بتاو¿ں کتنا خوبصورت ہے ؟ ےہاں ہر سُو رونق ہے ، زندگی رواں دواں ہے، پرندے چہچہا رہے ہےں اور درختوں کے پتے ہےں کہ جو جاڑے کے نئے رنگ اوڑھے منظر دلکش بنا رہے ہےں۔ لاہور کی سردیاں ، گرمیاں اپنی مثال آپ ہےں، انہی موسموں کے رنگ ےہاں کے بسنے والوں پر بھی واضح نظر آتے ہےں۔ موسموں کے رنگوں کو چہروں پر اوڑھ کر باہر کی دنیا کی وحشتوں اور تلخیوں کو چھپاتے ہوئے ہنستے مسکراتے چہرے کہ جن مےں دل نا جانے کےا ہے یا شاید کچھ بھی نہےں مگر روشنی ہے ، اُمید ہے ، خوشی ہے اور اچھے وقت کی آس مےں آج کو گزارتے ہوئے ےہ خوبصورت لوگ کل کو بھلا کر آگے بڑھ رہے ہےں۔ معیشت ڈوبے گی یا ترے گی ےہ ابھی کے ہچکولوں کو بھی جھولے سمجھ کر مزے لے رہے ہےں۔
بدلتا موسم محبتوں، رویوں اور سوچ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ انسان کے لئے بدلتے موسموں کے ساتھ مزاج کو ہم آہنگ کرنا شاید اس لئے کٹھن ہے کہ اس کے وجود کو موسم کی کسی خاص آہٹ، رنگ، خوشبو اور ادا کی عادت ہو جاتی ہے۔ یہ عادت اپنائیت میں ڈھل کر دوستی کا احساس دلاتی ہے جس سے بچھڑنا مشکل نظر آتا ہے۔ آج کل آہٹ اور خوشبو کی بجائے ہر سو عجب خامشی کا راج ہے، شاید بدلنے والے کو بھی کرب کے عالم کا سامنا ہے، شاید پرانے پتوں سے جدائی کا غم ماحول میں یاسیت کا باعث ہے۔ تعلق اور رشتے بھی پتوں کی طرح ہوتے ہیں۔ رشتوں کی طرح موسم میں بھی منافقت کی ادائیں موجود ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ اپنے ظاہر اور باطن کو مکمل عیاں نہیں کرتا یعنی دل کی بات نہیں کہتا جس کی وجہ سے انسان تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے۔ ذات کے شجر پر بھی خزاں کا موسم آتا رہتا ہے، کبھی تو ٹھہر ہی جاتا ہے۔ موسموں کا تغیر تو فطری نظام کے تابع ہے لیکن ذات کی داخلی اور باطنی کیفیات کے تابع موسم کا ضابطہ بالکل مختلف ہے۔ موسمی تغیر کے نتیجے میں خزاں کے بعد بہار کی آمد فطری اور طے شدہ حقیقت ہے لیکن ذات کے مزاج کا پلّو اگر گلاب کے کانٹے میں اٹک جائے تو بعض اوقات پلّو چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے اور کانٹے کی چبھن دھڑکن میں تیر کی طرح سرایت کر کے روح اور بدن کا تعلق توڑ دیتی ہے۔ اگر فطرت کے ضابطوں کی طرح دُکھ سکھ اور ہجر و وصال کے بھی آنے جانے کے اوقات مقرر ہوتے تو شاید انسان اتنا اداس اور یاسیت کا شکار نہ ہوتا۔ چند دن پہلے مالی نے اچانک میری کھڑکی سے نظر آنے والے گُلوں کے سر قلم کر دیئے۔ شاید وہ بھی بدلتی رُت کو محسوس کروانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ قتل میرے احساس کو مجروح کر گیا۔ وہ پھول جنہیں مرجھا کر ختم ہونا ہی تھا کے کٹنے پر دل لہو لہو ہو گیا کیوں کہ وہ عام پھول نہیں تھے، وہ مجھ سے باتیں کرتے تھے، میری زبان سمجھتے تھے، مجھے دلاسہ دیتے تھے، میری باتیںسنتے تھے، میری ر وح کی آسودگی کا سامان کرتے تھے وہ اک پل میں مٹی میں مل گئے، پھر سے نیا جنم لینے کے لئے، یہی زندگی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی وجود فطرت سے ہم آہنگ کیوں نہیں ہو سکا حالانکہ پوری کائنات میں ایک ہی روح جاری و ساری ہے۔ کائنات کی ہر شے احساس سے عبارت ہے۔ وہ مکالمہ کرتی ہے اور ہواﺅں کی سرگوشیاں سنتی ہے۔ انسان یہ سرگوشیاں سننے پر قادر کیوں نہیں ہے؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ اس نے خود کو فطرت سے الگ تصور کر لیا ہے اور و ہ اس کا حاکم بن بیٹھا ہے حالانکہ انسان خود فطرت کے نظام کا حصہ ہے تو وہ فطرت کے اصولوں سے بغاوت کر کے کیسے خوش رہ سکتا ہے؟ آج کا انسان دیواروں میں محبوس ہو کر بالکل غیر فطری ماحول کا اسیر ہو چکا ہے اور اس کا رابطہ پھولوں، خوشبوﺅں، جگنوﺅں، تتلیوں، چاند اور ستاروں سے منقطع ہو چکا ہے۔ اسے فطرت سے دوبارہ جڑت کے لئے نہ صرف اسے منانا ہو گا بلکہ اپنے وجود کو اس کے نظام سے ہم آہنگ کر کے روح اور بدن کی مسافت کو کم کرنا پڑے گا ورنہ یہ مسافت زیست کی کثافت میں اور اضافہ کر کے اسے لطافت سے محروم کر دے گی جس سے وہ نہ صرف فطرت سے جدا ہو گا بلکہ اپنی ذات سے بھی بچھڑ جائے گا لیکن تخلیق کار کا مسئلہ ذرا مختلف ہے۔ زندگی اسے ویسے نہیں ملتی جیسے عام انسان سے ملتی ہے۔ تخلیق کار حساسیت کی اس سطح پر ہوتا ہے جہاں عام فرد پہنچنے اور محسوس کرنے کی قدرت سے عاری ہوتا ہے۔ حساسیت کی یہ بلند سطح احساس کی وہ صلیب ہے جہاں وہ خود اپنے آپ کو لے کر جاتا ہے۔ حساس انسان زیادہ تر اپنی ذات کے سائے تلے زندگی بسر کرنا پسند کرتا ہے کیوں کہ اس کے جداگانہ نظریات و تصورات اس کے سائبان ہوتے ہیں۔ اسے خبر ہوتی ہے کہ زندگی کو صرف مفادات کی نظر سے دیکھنے والے مشکل وقت میں اس کی دلجوئی کی بجائے دھوپ اوڑھ لیں گے۔ اس کا تجربہ اسے کسی اور کے سائے سے اجتناب کا درس دیتا ہے۔
تبدیلی اور تغیر فطرت ہے تو کیوں انسان بدلتے ہوئے دو موسموں کے بیچ میں معلق ہو کر رہ جاتا ہے؟ وہ فوری طور پر نئے موسم سے جڑت قائم کر کے پرانے کو الوداع کیوں نہیں کہہ دیتا؟ شاید اس لئے کہ دو موسموں کے درمیان کا فاصلہ ہی اصل میں تغیر کا عمل ہے جس کے تحت غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ نیا موسم پرانے کی جگہ لیتا ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ تغیر اور تبدیلی میں آہستگی اور شائستگی کا توازن برقرار رہے۔ یکدم اور فوری تبدیلی کو انسانی فطرت برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوتی۔ یکدم تبدیلی بغاوت کے مترادف گردانی جاتی ہے جب کہ فطرت بغاوت کی بجائے انقلاب کے سامان کرتی ہے اور انقلاب ہمیشہ روایت اور نظام کے اندر سے پھوٹتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حسن اور توازن کو قائم رکھنا فطرت کا شیوہ ہے اور اسی سے خیر کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ اگر یہی فارمولا باقی سوشل سائنسز کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل سائنس پر بھی لاگو کیا جائے تو یہ دیکھنا بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ پولیٹیکل سائنس میں کی جانے والی کوشش بغاوت کے زمرے میں آئے گی یا انقلاب کے۔ بدلتے موسموں کی طرح اگر تعلق بھی آہستہ آہستہ اپنا رُخ بدلیں تو شاید انسانی دِل اسے بھی قبول کر لے۔
موسم اور رشتے
Jan 23, 2023