پنجاب میں نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کا قضیہ

’’نسلی شناخت ‘‘کی بنیاد پر اٹھائے تعصب کی بدولت ہمارے ذہنوں میں برسوں سے تاثر یہ بٹھایا گیا ہے کہ پشتون اپنے ذاتی اور اجتماعی مسائل کا حل مشاورت سے ڈھونڈنے کے عادی نہیں۔اپنی بات منوانے میں ناکام ہوجائیں تو بندوق اٹھاکرمورچہ بند ہوجاتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت تحلیل ہوجانے کے بعد مگر ایسا نہیں ہوا۔تحریک انصاف کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ نے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی درخواست وفاقی حکومت کے لگائے گورنر کو بھجی تو اسے فی الفور منظور کرلیا گیا۔ اس کے بعد ہم صحافیوں کی اکثریت اس گماں میں مبتلا رہی کہ اندھی نفرت وعقیدت کے موجودہ موسم میں نگران وزیر اعلیٰ کا انتخاب دشوار تر ہوجائے گا۔یہ معاملہ بھی تاہم حیران کن سرعت سے طے ہوگیا ہے۔واقفانِ حال کا دعویٰ ہے کہ بلاجواز تکرار میں وقت ضائع کئے بغیر اعظم خان کے نام پر کھلے دل سے اتفاق ہوگیا۔
اعظم خان کا تعلق چارسدہ سے ہے۔ بنیادی طورپر بیوروکریٹ ہیں۔ان کے ایک سگے بھائی بھی پولیس سروس میں رہے۔ عباس خان ان کا نام ہے جو پنجاب کے آئی جی پولیس بھی رہے ہیں۔خیبرپختونخواہ کے کئی نامور سیاستدانوں سے ان کے خاندان کی قریبی رشتے داریاں بھی ہیں۔امید ہے کہ ان کی نگرانی میں ہوئے انتخابات کے نتائج پر سوالات نہیں اٹھائے جائیں گے۔
خیبرپختونخواہ کے برعکس آبادی کے اعتبار سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے۔ گزرے برس کے اپریل سے مسلسل انتشار کی زد میں ہے۔عمران خان صاحب نے بالآخر چودھری پرویز الٰہی کو وہاں کی اسمبلی تحلیل کرنے کو مجبور کردیا۔ وہ تحلیل ہوگئی تو نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق رائے نہ ہوپایا۔میرا یہ کالم چھپنے تک غالباََ الیکشن کمیشن ہی کو اس کا فیصلہ کرنا ہوگا۔اس ضمن میں جس نام کا اعلان ہوگا اس کا ذکر اگر عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے نامزد کردہ ناموں میں شامل نہیں تو ایک اور قضیہ کھڑا ہوجائے گا۔ اس کی بدولت انتخابی عمل کی ’’شفافیت‘‘ بھی مشکوک ہوجائے گی۔
ملکی سیاست کا کئی برسوں سے شاہد ہوتے ہوئے میں یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ پنجاب کی سیاست کے مرکزی فریقین جان بوجھ کر معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھائے چلے جارہے ہیں۔ ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘کا رویہ انہیں بردبار معاملہ فہمی سے کاملاََ محروم کئے ہوئے ہے۔نگران وزیر اعلیٰ کے لئے ممکنہ ناموں کی فہرست پہلے تحریک انصاف کی جانب سے آئی تھی۔عمران خان اور چوہدھری پرویز الٰہی کے مابین جب اس ضمن میں مشاورت ہوئی تو سابق وزیر اعظم نے سب سے پہلے احمد نواز سکھیرا کا نام لیا۔
سکھیرا صاحب بھی اعظم خان کی طرح بیوروکریسی سے تعلق رکھتے ہیں۔قواعد وضوابط پر سختی سے عمل پیرائی کے خواہاں ۔اسی باعث کسی سیاسی جماعت کے وفادار تصور نہیں ہوتے۔نواز شریف کی تیسری حکومت کے آخری ایام کے دوران سیکرٹری اطلاعات تعینات ہوئے تھے۔ عمران خان صاحب نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد مگر انہیں کیبنٹ سیکرٹری لگادیا۔ بیوروکریسی میں یہ اہم ترین عہدہ تصور ہوتا ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لئے جب ان کا نام’’فریق مخالف‘‘کی جانب سے آیا تو سکھیرا صاحب نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔وہ رواں مہینے کے آخری ہفتے میںسرکاری ملازمت سے ریٹائر ہورہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ ریٹائرمنٹ سے قبل رخصت پر چلے جائیں ۔وفاقی کابینہ کے اپنی ریٹائرمنٹ تک ہوئے اجلاس میں شرکت نہ کریں۔ شہباز صاحب نے مگر ان کی استدعا رد کردی۔وزیر  اعظم کے مذکورہ رویے نے عندیہ دیا کہ ان کی دانست میں سکھیرا صاحب فریق مخالف کے ’’وفادار‘‘ نہیں۔گویا ان کی نامزدگی پر ناراض نہیںہوئے ۔
’’جواب آں غزل‘‘ کے طورپر مسلم لیگ (نون) کی جانب سے ایک اور بیوروکریٹ احد چیمہ کا نام بھی نگران وزیر اعلیٰ کے لئے تجویز کردیا گیا۔شہباز صاحب کے وہ طویل برسوں تک چہیتے افسر رہے ہیں۔اس چاہت نے موصوف کو عمران حکومت کے دوران احتساب بیورو کے ہاتھوں بے شمار اذیتوں کا شکار بنائے رکھا۔ساتھ ہی محسن نقوی کا نام بھی منظر عام پر آگیا۔
مجھے خدشہ ہے کہ پرویز الٰہی نے حال ہی میں پنجاب کے متوقع وزیر اعلیٰ کی بابت جو قضیہ کھڑا کرنے کی دھمکی دی ہے نشانہ اس کا محسن نقوی ہیں۔چودھری خاندان کے ایک حوالے سے داماد ہوتے ہوئے وہ اس خاندان کے لئے ’’گھر کا بھیدی‘‘ ثابت ہوسکتے ہیں۔نگران وزیر اعلیٰ کے لئے ان کا نام منظر عام پر آنے سے چند ہی دن قبل چودھری مونس الٰہی نے ان کی ایک تصویر کے گرد دائرہ لگاتے ہوئے چند طنزیہ فقروں پر مبنی ٹویٹ لکھا تھا۔مذکورہ ٹویٹ نے منکشف یہ بھی کیا کہ محسن نقوی کو پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ لگانے کی گیم لگائی جارہی ہے جسے فرزند پرویز الٰہی نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔
محسن نقوی کی ذات کی بابت تبصرہ آرائی سے میں گریز کروں گا۔وہ مختلف ٹی وی چینلوں کے مالک ہیں۔میرے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ دوستانہ رہا ہے۔باہمی تعلق اگرچہ شناسائی تک محدود ہے۔محسن نقوی صاحب کی تعیناتی کے خلاف ان کے ناقد اور مخالفین سودلائل سوچ سکتے ہیں۔ان کی ذات کو متنازعہ بنانے کے لئے مگر کچھ حلقوںکی جانب سے جو سوال اچھالا جارہا ہے وہ مسلکی بنیادوں پر ہوئی تقسیم کو مزید بھڑکاسکتا ہے۔اس سے گریز ہی میں عافیت ہے۔
بہتر تو یہی تھا کہ پنجاب کے ’’انتہائی تجربہ کار‘‘ سیاستدان باہمی مشاورت سے ازخود کسی نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق کرلیتے۔ ان کے مابین عدم اتفاق ہی نے گوٹ الیکشن کمیشن کے کورٹ میں پھینکی ہے۔حتمی فیصلے کو الیکشن کمیشن کے ازخود سپرد کردینے کے بعد چودھری پرویز الٰہی یا ان کے سیاسی مخالفین کو اس ادارے کی جانب سے ہوئی تعیناتی پر سوال اٹھانے کا اخلاقی حق میسر نہیں رہا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے لگائے نگران وزیر اعلیٰ کے خلاف مچائی ممکنہ دہائی میرے وسوسوں بھرے دل کویہ سوچنے کو مجبور کرے گی کہ سیاسی فریقین کے مابین باہمی مشاورت کے ذریعے نگران وزیر اعلیٰ کی تلاش کے عمل کو جان بوجھ کر متنازعہ بنایا گیا ہے۔مقصد جس کا شفاف انتخاب کا حصول نہیں بلکہ پنجاب میں خلفشار کی چنگاریو ں کو مزید بھڑکانا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...