فیض عالم………قاضی عبدالرئوف معینی
قوم کا معاشی ،سیاسی اور سماجی زوال ایک پریشان کن حقیقت ہے۔ایک بہترین زرعی ملک میں اگر اجناس عوام کی پہنچ سے دور ہوجائیں ، کھیت سے دہقان کو روزی میسر نہ ہو اورعام آدمی کے لیے عرصہ حیات تنگ ہو جائے تو پھر اس دور کے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے۔معاشی زوال کے اس عمل کو روک کر حالات کے بہتر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے لیکن اخلاقی زوال اس سے کہیں بڑی پریشانی کی بات ہے۔جھوٹ ، کرپشن ،اشیاخورد و نوش کی ذخیرہ اندوزی ، مصنوعی قلت اور ناجائز منافع خوری بد ترین اوصاف میں سے ہیں۔ ماہرین عمرانیات کے بقول اخلاق سے قومیں بنتی ہیں اور اخلاقی دیوالیہ پن قوموں کی مستقل تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔شواہد بتاتے ہیں کہ قوم کا اخلاق تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں ایسا کیوں ہوا اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہو ۔اخلاقی پستی اور زوال کی بہت سی وجوہات میںسے ایک وجہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میںاخلاقی تربیت کا نظام نہیں ہے۔ بچوں کو اچھی تعلیم دینے کے لیے تو کوشش کی جاتی ہے لیکن اچھا انسان بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ایک زمانہ تھاجب ابتدائی جماعتوں کا نصاب اخلاقی کہانیوں پر مشتمل ہوتا تھا۔مغرب کی اندھی تقلید نے نصاب میں بیہودہ مواد جمع کر دیا ہے جس کی وجہ سے طالب علم اخلاقی اور مذہبی اقدار سے بے بہرہ ہوتا جا رہا ہے۔اگر کسی کو اس میں کوئی شک ہو تو وہ چھٹی کے وقت کسی بھی تعلیمی ادارے کے باہرمشاہدہ کر سکتا ہے۔قوم کے مستقبل کی حرکات دیکھتے جائیں اور شرماتے جائیں۔ترقی یافتہ ممالک میں بہترین اخلاقی اقدار کی وجوہات میں سر فہرست وجہ یہ ہے کہ وہاںنصاب میں اخلاقی تربیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ملک عزیز کا آدھا مستقبل تو تعلیمی اداروں میں جا ہی نہیں رہا اور جو جا رہا ہے اس کی فکر کرنی چاہیے۔ملک میں نظام تربیت کو بہتر کرنے کے لیے گفتار کا غازی بننے کی بجائے کردار کا غازی بننے کی ضرورت ہے ۔عملی اقدامات کے بغیر سدھار ممکن نہیں اور اس کے لیے لازم ہے کہ
شکوہ شب ظلمت سے کہیںبہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ایک اور شاعر نے بھی کمال بات کی کہ
اندھیرے سے لڑائی کا یہی احسن طریقہ ہے
تمہاری دسترس میں جو دیا ہے وہ جلا دینا
اس سے پہلے کہ صورت حال ہاتھوں سے نکل جائے اہل علم و اہل دانش کو میدان میں نکلنا پڑے گا،پالیسی سازوں کو نصاب سازی پر توجہ دینی ہو گی،سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کومحنت کرنا ہوگی، نجی تعلیمی اداروں کو فر فر انگریزی بولنے کے ساتھ عمدہ اخلاق والے انسان بنانا ہوں گے،علمائے کرام کو اپنی تقاریر میں اخلاقی موضوعات پر بات کرنا پڑے گی اور مشائخ کو اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک ایسے تربیتی نظام پر کام کرنے کی ضرورت ہے جس سے کردار سازی اور شخصیت سازی ممکن ہو۔باعث مسرت ہے کہ ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر طاہر حمید تنولی ،محقق و سیرت نگار پروفیسر ڈاکٹر عقیل احمد اور مذہبی و روحانی سکالرصاحبزادہ مستفیض احمد اپنے حصے کی شمع جلانے کے لیے نکلے اور ضلع سرگودھا کے مضافات میں آباد بستی بیربل شریف میں قائم دینی اور عصری علوم کی عظیم درس گاہ ادارہ معین الاسلام میں ایک عمدہ علمی و تربیتی نشست کا اہتمام کر ڈالا۔ڈاکٹر عقیل احمد نے اپنے خطاب میں معروف ماہر تعلیم و ناظم ادارہ پروفیسر صاحبزادہ محبوب حسین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ مبارک باد کے مستحق ہیں جوادرہ میںتعلیم کے ساتھ سینکڑوںطلباکی فکری ،اخلاقی اور عملی تربیت کا بھی اہتمام کر رہے ہیں۔ اگر ہر تعلیمی ادارہ میںایسی نشستوں کا انعقاد کیا جائے تویقینا ایک صالح معاشرہ کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ہمارے اسلاف نے تعلیم کے ساتھ کبھی بھی اصلاح احوال کی جہت کو فراموش نہیں کیا۔صاحبزادہ مستفیض احمد صاحب نے دینی اداروں میں تربیتی نظام پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دینی اداروں میں طلبا کی کثیر تعداد حصول تعلیم کے بعد معاشرہ کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اس لیے ان طلبا کو جدید عصری علوم سے روشناس کروانا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر حمید تنولی صاحب نے مولانا جلال الدین رومی اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے افکار کی روشنی میںموجودہ تربیتی نظام کے مسائل اور معاشرے میں اس کی عدم موثریت کی وضاحت فرمائی ۔انہوں نے فکر اقبال کی روشنی میںاس نکتہ کی وضاحت کی کہ تصوف تعمیر کردار کا ایک ایسا عمل ہے جس کے نتیجے میں انسان کا کردار پختہ ہوتا ہے ۔تصوف کی بنیاد اخلاقیات پر استوار ہے۔ تصوف کا کوئی بھی مکتبہ فکر اور کوئی بھی استاد انسان کی اخلاقی اساس کو نظر انداز نہیں کرتا۔جب تک اخلاقیات تصوف کے دئیے ہوئے معیار پر پورا نہ اترے تصوف کے اعمال ، مجاہدات اور نظام تربیت کبھی بھی نتائج پیدا نہیں کرتے۔آج ہمارا معاشرہ جس اخلاقی بحرن کا شکار ہے اس کا تدارک اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ تصوف کے منہج تربیت کواس کے تقاضوں کے ساتھ اختیار کیا جائے۔ سینکڑوں طلبا کی تربیت کے لیے ان عظیم سکالرز کی یہ بے لوث کاوش قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔