عنبرین فاطمہ
سیاست ہو ریاست ہو یا معاشرت، خواتین کی شرکت کے بغیر کوئی بھی شعبہ اپنی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی سیاست میں خواتین کے کردار کی بھی یہی کہانی ہے۔ پاکستان کی 49 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے،پاکستان کی معیشت میں خواتین کا اہم کردار ہے جسے ہمار ے ہاں ایک حد تک محدودرکھا جاتا ہے مگر کسی بھی شعبے میں خواتین کیلئے اچھے برے یکساں اثرات ہوتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہماری سیاست میں اکثریت ان خواتین کی ہوتی ہے جن کو سیاسی عہدے وراثت میں ملتے ہیں ۔پاکستان میں خواتین کی سیاسی عمل میں مؤثر نمائندگی اور شرکت تب ہی ممکن ہے جب پاکستان کے ہر حصے سے کوئی بھی خاتون بلا امتیاز کسی بھی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے برابری کی بنیادوں پر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرسکے گی۔ اس کے لیے اس کا تعلق کسی نامی گرامی سیاسی خاندان سے ہونا ضروری نہ ہو۔ہمیں یہ مانناچاہیے کہ خواتین ہمارے معاشرے اور سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، لیکن بات صرف تعداد تک ہی ہے۔ خواتین سے متعلق امور کی وزارتیں اس وقت مرد وزرا نے سنبھال رکھی ہیں۔ قومی اور صوبائی کابیناؤں میں خواتین کی تعداد انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔سماجی کارکن بشری خالق جو کہ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرتی ہیں اور ان معاملات پر کافی گہری نظر رکھتی ہیں۔ ہم نے ان سے خصوصی طور پر بات کی اور ان سے جاننے کی کوشش کی کہ 2018سے اب تک پانچ سالہ حکومت میں خواتین کے لئے کتنی قانون سازی ہوئی اور سیاست میں حصہ لینے والی خواتین کی کارکردگی کیسی رہی ۔ بشری خالق نے کہا کہ 2018کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹینز کو بہت زیادہ پرجوش دیکھا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف ہو یا پاکستان مسلم لیگ ن ان میں نوجوان خواتین سیاستدان بھی دیکھنے کو ملیں۔صوبائی اسمبلی اور فیڈرل لیول پر یہ کافی خوش آئند بات ہے کہ نوجوان خواتین آگے آئیں۔ خواتین سیاست میں ہیں تو سہی لیکن ان کا سیاسی کردار بہت کم ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سوسائٹی دونوں ہی خواتین کی اہلیت اور قابلیت کو بہت زیادہ نہیں سراہتی۔ دوسری طرف ہم اگر سیاسی جماعتوں کو دیکھیں تو انہوں نے اپنی جماعتوں میں صوبائی سطح پر خواتین کو اچھی پوزیشنز دیں لیکن فیصلہ سازی میں ان کا کردار نہیں رکھا گیا ان کو شراکت دار نہیں بنایا گیا بلکہ مردوں کا ہی سیاسی جماعتوں میں زیادہ کردار نظر آیا ہے۔پی ٹی آئی کی پارٹی کی سطح پر فیصلہ سازی میں مردوں کی اجارہ داری ہی نظر آتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نے مریم نواز کو موقع تو دیا لیکن وہ بھی پارٹی کی سطح پر فیصلہ سازی میں آزاد نظر نہیں آتیں۔ پنجاب میں اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی خواتین کا کردار دیکھیں تو وہ قدرے کم نظر آیا جو کہ ایک وقت میں بہت زیادہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کی کارکردگی تسلی بخش نظر نہیں آتی۔ جہاں تک ان پانچ برسوں میں خواتین کے حوالے سے قانونی سازی کی بات ہے تو اتنی نہیں ہو سکی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ بچوں کے حوالے سے قانون سازی ہوئی اس میں زینب الرٹ قابل ذکر ہے۔ اسی طرح ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے 2019 میں قانون سازی ہوئی۔ اسی طرح سے نیشنل اسمبلی میں ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے قانون سازی ہوئی اور کے پی کے اسمبلی میں بھی اس حوالے سے پیش رفت ہوئی۔ ٹرانسجینڈرز کے حق میں بھی قانون پاس کیا گیا۔ ہراسمنٹ کے قانون میں ترمیم کے ساتھ وراثت میں عورتوں کے حق کے حوالے سے قوانین میں جو کوتاہیاں ہیں اس پر کام شروع ہوا۔ اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہوئیں گفتگو بھی ہوتی رہی لیکن زیادہ آگے اس لئے بھی چیزیں نہ جا سکیں کیونکہ ہمارا سیاسی ماحول بھی مستحکم نہیں رہا۔ اسی طرح سے لوکل گورنمنٹ میں قانون سازی ہوئی انتخابات بھی ہوئے ، سندھ میں حال ہی میںدوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات مکمل ہوئے ۔بلوچستان میں بھی قانون سازی ہوئی اور انتخابات بھی ہوئے۔ پنجاب کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہاں قانون سازی تو ہوتی رہی لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
خواتین پارلیمنٹیریز نے اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر ہر جگہ ہر ایشو پر آواز اٹھائی۔ خصوصی طور پر پاکستان تحریک انصاف کی خواتین پارلیمنٹیرینز نے پنجاب کی سطح پر خاصی جاندار پرفارمنس دکھائی، چاہے وہ بچوں کے ایشوز ہوں یا گھروں میں کام کرنے والے ورکرز کے ایشوز۔ دوسری طرف لوکل گورنمنٹ اور ویمن امپاورمنٹ سے متعلقہ ایشوز رہے ۔ان میں ہمیں پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی کی خواتین بہت زیادہ متحرک نظر آئیں۔ اس کے علاوہ پنجاب میں گھریلو تشدد کے خلاف داد رسی کیلئے مراکز بھی بنائے گئے ۔اس حوالے سے بھی قانون سازی ہوئی اس پر عملی طور پر نفاذ بھی ہو رہا ہے جو کہ پنجاب میں نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ نظر یہی آتا ہے کہ خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے ان کا کردار مردوںکی نسبت کم نظر آتا ہے۔ عورتیں اپنی پارٹی کے کسی فیصلے سے متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن ان کو قائل ہونا پڑتا ہے، ان کو پارٹی کی رائے اور ان کے اس قسم کے احکامات کو فالو کرنا پڑتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو ان پانچ برسوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بات ہو یاقانونی ترامیم ،خواتین ہر شعبے میں ایک فعال کردار اداکرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں تاہم اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ لڑکیاںتعلیم حاصل کر رہی ہیں آگے بڑھ رہی ہیں اچھی ملازمتیں اور عہدے پارہی ہیں لیکن اب بھی پاکستان میں معاشی یا سماجی ترقی کے اعداد و شمار مایوس کن ہیں۔ صحت ہو، تعلیم یا پھر روزگار، پاکستان میں خواتین کے حوالے سے رپورٹس کے نتائج حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ اگر ہم ورلڈ اکنامک رپورٹ دیکھیں تو وہاں بھی پاکستان رینکنگ میں کافی نیچے نظر آتا ہے ۔خواتین کے لئے جابز کے مواقع نہیں ہیں ، تشدد ہے ، کلنگ ہے۔ حتیٰ کہ افغانستان خواتین کے لئے معاملے میں ہم سے بہتر رینکنگ میں ہے۔ ہم شہروں میں بیٹھے یہ سمجھ ہیں کہ شاید خواتین کے معاملے میں حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں تو یہ صورتحال بنتی جا رہی ہے کہ عورت چاہے پڑھی لکھی ہے یا ان پڑھ وہ خوف کے ماحول میں جی رہی ہے اس کو نہیں پتہ کب اس کے ساتھ کیا ہو جائے وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے جانے ان جانے خوف کاشکار ہے۔یہ بے یقینی اسکی صلاحیتوں کوزنگ کی طرح کھارہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
فائنل