وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارتی وزیراعظم مودی کو پیغام دیا ہے کہ ہ مقبوضہ کشمیر سمیت تمام حل طلب مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ بات چیت کریں جبکہ متحدہ عرب امارات کی قیادت بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔اس میں دہرائے نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، یہ بند ہونی چاہئیں۔ کشمیریوں کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ملنے والے حقوق یک طرفہ طور پر 5 اگست 2019 کے اقدام سے ختم کر دیئے گئے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے، بھارت کو اسے روکنا چاہیے اور دنیا کو پیغام دینا چاہیے کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے۔وزیراعظم شہبا زشریف نے کہا کہ میرا بھارت کی قیادت اور وزیراعظم مودی کو یہ پیغام ہے کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور تمام حل طلب مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ بات چیت کریں، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، یہ بند ہونی چاہئیں ۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی طرح پاکستان کا دیرینہ دوست ملک ہے، پاکستان کے وجود میں آنے سے سینکڑوں سال پہلے برصغیر میں بسنے والے لاکھوں مسلمان سمندر اور صحر ا کے راستے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے جاتے تھے، اس لیے سعودی عرب کے ساتھ یہ تعلقات سینکڑوں سال پرانے ہیں۔ یو اے ای لاکھوں پاکستانیوں کا دوسرا گھر ہے اور اس کے پاکستان کے ساتھ انتہائی قریبی برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔اس کی قیادت پاکستان کی دیرینہ مددگار اور مہربان ہے، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور یہاں کے عوام خوشحال ہوں، اسی طرح شیخ زید پاکستان کے ایک بڑے خیرخواہ اور دوست تھے۔ اسلامی دنیا اور بالخصوص خلیجی ممالک جو پاکستان کے ہمسائے ہیں، ان کے ساتھ تعلقات باہمی مفادات، مذہب، ثقافت اور تاریخی رابطوں پر مبنی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور خلیجی ممالک کی قیادت کے درمیان یہ عزم پایا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تجارت، ثقافت اور سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو، اسلام کو امن، مساوات اور ہر قسم کی دہشت گردی کی نفی کرنے والے دین کے طور پر فروغ دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک متفقہ ایجنڈے کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، ان تمام بنیادوں پر دونوں ممالک شراکت دار ہیں۔
دوسری جانب چین کے ساتھ دوطرفہ تجارتی تعلقات میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے، پاکستان اور چین علاقائی امن و استحکام کو فروغ دینے پر یقین رکھتے ہیں ۔ قومی ترقی اور خوشحالی کے مشترکہ خواب میں بھی شریک ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) اور2013 ء میں چین کے تجویز کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) جیسے نئے اقدامات کی بدولت بھی پاک چین باہمی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان کثیر جہتی شراکت داری قائم ہے۔مضبوط تذویراتی اور دفاعی تعاون ہے۔ اقتصادی اور تجارتی تعلقات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں اور مالیات، سرمایہ کاری اور صنعتی شعبوں میں قریبی روابط کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ ان کو فروغ دیا ہے۔ چین پاکستان کے طلباء کے لئے اولین منزل بن چکا ہے اور لوگوں کے لوگوں سے مضبوط روابط ہیں جن کی آبیاری فنکاروں، ماہرین تعلیم، سائنسی برادری اور میڈیا نے کی ہے۔سی پیک منصوبہ ایک راہداری منصوبہ ہے جو پاکستان کی گوادر کی بندرگاہ کو شمال مغربی چین کے سنکیانگ ایغور خود مختار علاقے میں کاشغر سے جوڑتی ہے۔ اس کا مقصد توانائی، ٹرانسپورٹ اور صنعتی تعاون کو فروغ دینا ہے۔سڑکوں اور ریلوے، توانائی کے منصوبوں، بندرگاہوں اور خصوصی اقتصادی زونز سمیت ملک کے جدید نقل و حمل کے نیٹ ورکس میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ سی پیک نے پاکستان کی ترقی اور بالخصوص اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کا موقع فراہم کیا ہے۔ چین اعلیٰ برآمدی منڈیوں میں سے ایک ہے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک وسیع آزاد تجارتی معاہدہ (سی پی ایف ٹی اے) بھی موجود ہے جو وسیع تر اقتصادی تعلقات میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔ سی پیک منصوبہ نے دونوں ممالک کے کثیر الجہتی اقتصادی تعلقات میں توانائی، انفراسٹرکچر، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون کی ایک نئی خصوصی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ یہ تعاون زراعت، سماجی و اقتصادی ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے شعبوں تک بڑھایا گیا ہے۔ مستقبل میں سی پیک نہ صرف چین اور پاکستان کے لیے بلکہ دنیا بھر کے تیسرے فریق کے لئے بھی نئے مواقع فراہم کرے گا۔پاکستان چین کے ساتھ قابل تجدید توانائی اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون کو بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کے سلسلہ مین پاکستان اور چین نے کئی بڑے سولر، ونڈ اور ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے شروع کئے ہیں۔
ادھر پاکستان اور امریکہ کے درمیان بزنس ٹو بزنس خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے، امریکہ پاکستان کے لیے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے اور آنے والے سالوں میں دوطرفہ تجارت مزید بڑھے گی۔ پاک امریکہ تعلقات کا موجودہ مرحلہ اقتصادی تعاون بڑھانے پر مرکوز ہے۔ حالیہ اعلی سطح کے دوروں میں تجارت، زراعت، کاروبار، ٹیکنالوجی، موسمیاتی تبدیلی، سبز توانائی، آفات سے نمٹنے کی تیاری، ماحولیات، صحت اور عوام کے عوام سے درمیان روابط کے شعبوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلیم، قیادت کے تربیتی پروگرام، موسمیاتی تبدیلی، ثقافت اور کاروبار کے شعبوں میں قریبی تعلقات کو فروغ دینے میں معاونت کرے گا۔ عالمی قیادت کے تبادلے اور تعلیمی پروگراموں، شراکت داریوں اور اقدامات تشکیل دیتا ہے جو سیکورٹی، توانائی اور ماحولیات، اقتصادی ترقی، کاروبار، عالمی صحت اور ثقافت پر بین الاقوامی تعاون جیسے اہم شعبوں کو مضبوط بناتے ہیں۔ اسی طرح پچھلے سال کے دوران پاکستانی طلبا، پیشہ ور افراد اور ماہرین کے متعدد وفود نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ ایک طویل عرصے سے پاک، امریکہ تعلقات کے فروغ میں پل کا کردار کیا جا رہا ہے۔