گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
آٹھ فروری کو انتخاب ہونے جا رہے ہیں۔انتخابی مہم کبھی آگے بڑھتی ہے، کبھی اس کو ریورس گیئر لگ جاتا ہے۔ چیف جسٹس صاحب کی طرف سے واضح طور پر کہا گیا کہ آٹھ فروری کے انتخابات پتھر پر لکیر ہے۔اور اس حوالے سے کسی قسم کی کنفیوڑن ،کسی قسم کا ابہام قابل قبول نہیں ہوگالیکن اس کے باوجود بھی شکوک و شبہات پھیلانے والے ،ابہام پیدا کرنے والے اپنا کام کر رہے ہیں۔انتخابات میں دو ہفتے رہ گئے ہیں لیکن انتخابی مہم اس طرح سے عروج پر ، اس طرح سے جوبن پر نظر اب بھی نہیں آتی۔ جو ماضی کا طرہ رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری تو ایک عرصہ سے عوام کے ساتھ انٹرایکشن میں ہیں جب کہ مسلم لیگ ن اس کی طرف سے دو روز قبل انتخابی سرگرمیاں شروع کی گئیں ہیں۔ تحریک انصاف انتخابی سرگرمیوں میں کہیں ہے کہ نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری لاہور سے حلقہNA-127سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔یہاں سے بلاول بھٹو زرداری کو جیتنے کے لیے کسی بڑی پارٹی کی حمایت کی ضرورت تھی اور یہ بڑی پارٹی مسلم لیگ ن کے سوا کونسی ہو سکتی ہے ؟لیکن بلاول بھٹو زرداری کی توپوں کا رخ صرف اور صرف میاں نوازشریف کی طرف ہے وہ نہ تو کسی دوسری پارٹی کا نام لیتے ہیں او رنہ ہی کسی لیڈر کو اس طرح سے القابات اور خطابات سے نوازتے ہیں جس طرح کے وہ میاں نوازشریف کے لیے آج کل استعمال کر رہے ہیں۔ توپھر بلاول کے لیے اس حلقے میں جیتنے کے لیے کیا چوائس رہ جاتی ہے۔ بلاول بھٹوزرداری کی طرف سے اس حوالے سے بڑی عقلمندی سے کام لیا گیا، بڑی دانشوری دکھائی گئی، جس نے بھی بلاول کو مشورہ دیا، صائب مشورہ دیا کہ ان کی طرف سے ادارہ منہاج القرآن کا وزٹ کیا گیا ،وہاں پر یہ پاکستان عوامی تحریک کے سیاسی ونگ کو کسی دور میں دیکھنے والے گنڈا پور صاحب سے ملے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ گنڈا پور کی دعوت پر بلاول بھٹو زرداری نے ادارہ منہاج القرآن کا وزٹ کیا تھا۔ اس وزٹ کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے سابق ونگ کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔ سابق ونگ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ دو تین سال قبل پاکستان عوامی تحریک کی سیاسی سرگرمیاں ختم کر دی گئی تھیں اور بطور سیاسی پارٹی اس کے چیئرمین طاہر القادری صاحب کی طرف سے خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مذہبی سرگرمیاں ادارہ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے جاری و ساری ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا رہا ہے جب کہ سیاسی سرگرمیاں بالکل ہی بند کر دی گئیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے عمران خان کو کزن کہا گیا تھا۔ دوستی سیاست میں ہوتی رہتی ہے لیکن کوئی کسی کو کزن یا بھائی کہہ دے تو پھر زبان کا دیا ہوا قول نبھایا جاتا ہے۔ عمران خان حکومت میں رہے، اس دوران طاہر القادری صاحب کو ان سے شکوہ اور گلہ تھا کہ سانحہ ماڈل ٹا?ن کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے عمران خان کی حکومت نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو کیا جانا چاہیے تھا لیکن طاہرالقادری صاحب کی طرف سے کسی ایک موقع پر بھی عمران خان کے خلاف بیان بازی سامنے نہیں آئی ،گلے شکوے ضرور ہوتے رہے نفرت انگیز بات کسی طرف سے بھی نہیں کی گئی۔ عمران خان نے ہمیشہ طاہر القادری کو عزت سے نوازا ،یہ الگ بات ہے کہ جو توقعات سانحہ ماڈل ٹا?ن کے مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے حوالے سے طاہر القادری کو تھیں وہ اس طرح پوری نہ ہو سکیں۔ سیاسی اختلافات جتنے بھی بڑھ جائیں لیکن جس طرح سے کزن کا ایک رشتہ قائم کیا گیا تھا وہ نہیں ٹوٹتا۔آپ کے تعلقات کم ہو سکتے ، زیادہ ہو سکتے ہیں، ختم ہو سکتے ہیں لیکن رشتے ختم نہیں ہو سکتے۔اب انتخابات کا وقت آیا ہے، تحریک انصاف مشکل میں نظر آتی ہے تو اس موقع پر طاہر القادری صاحب چونکہ سیاست سے الگ ہو چکے ہیں، پاکستان عوامی تحریک سیاست میں موجود نہیں ہے لیکن ان کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔تو پھر سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کو طاہر القادری صاحب کیوں چھوڑ گئے۔ اگر تو وہ سیاست سے لاتعلق رہتے تو پھر کسی کی بھی حمایت نہ کرتے۔یہاں پراس چیز کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ طاہر القادری صاحب کو فالو کرنے والے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے کم از کم ڈیڑھ کروڑ لوگ تو موجود ہیں لیکن کسی ایک حلقے میں بھی ووٹر کی تعداد کبھی پانچ ہزار سے زیادہ نہیں رہی۔ اس حلقے میں جس میں بلاول بھٹو زرداری الیکشن لڑ رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہاں پر بیس سے تیس ہزار ووٹ طاہر القادری صاحب کا ہو کیونکہ ادارہ منہاج القرآن اسی حلقے میں واقع ہے۔
قارئین! جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد پروفیسر ڈاکٹر جناب طاہر القادری صاحب نے اپنی خواہش پر اور میری رضامندی سے مجھے اپنا پولیٹیکل سیکرٹری اور کنسلٹنٹ مقرر کیاتھا (میری طرف سے صرف ایک درخواست تھی کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو پولیٹیکل کنسرٹ کروں گا اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور ان کی پارٹی کے لیے بین الاقوامی اور اثرانداز حلقوں میں لابنگ کروں گااور عوامی تحریک جوائن کرنا اس میں شامل نہیں تھا)
طاہر القادری صاحب نے سیاست میں بڑا زور لگایا لیکن ان کی پارٹی کو پذیرائی نہ مل سکی۔ اب تک انہوں نے جو سیاست کی ہے کئی دہائیوں کی سیاست میں ان کے کریڈٹ پر صر ف ایک ہی ان کی ذاتی سیٹ موجود ہے۔قارئین اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ذاتی طو ر پر ایک صاحبِ کردار ،باہمت اور جادوئی قسم کا ویڑن رکھنے والے موجودہ صدی کے اسلامی اسکالر ہیں۔اور ان کے ساتھ میرا کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد بھی میں انہیں اپنی متعدد تحریروں میں انہیں اس صدی کا مجدد سمجھتا ہوں۔ہاں مگر یہ بھی ضروری تو نہیں کہ کوئی مجدد صفات رکھنے والا سیاسی تدبر بھی اتنا ہی رکھتا ہو؟
قارئین! اشتیاق چوہدری سپریم کورٹ کے انتہائی سینئر وکیل ہیںاور پاکستان میں مرحوم ایس ایم ظفر کے بعد اگر انسانی حقوق کے لیے کوئی آواز اٹھتی ہے تو وہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے شاگردِ خاص اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ کی آواز ہے۔اور میرے اپنے سیاسی طالب علم ہونے کے ناطے یہ تجزیہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے سے پہلے عوامی تحریک کے لاکھوں کارکنان کو بے یارومددگار اور منزل کا کوئی ٹارگٹ دیئے بغیر سبک دوش نہ ہوتے تو اشتیاق چوہدری جیسے چند لوگ اس سیاسی پلیٹ فارم کو کامیابی سے رواں دواں رکھ سکتے تھے۔
جب بھی سانحہ ماڈل ٹا?ن کی بات ہوتی ہے تو تحریک انصاف کی طرف سے پوری کوشش کی گئی کہ ان کے مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے وہ الگ بات ہے کہ معاملات کیا ہوئے کہ وہ لوگ آج بھی محفوظ ہیں۔تو جو وکلاء ٹیم ادارہ منہاج القرآن کی طرف سے تشکیل دی گئی تھی اس کو لیڈ کرنے والے اشتیاق احمد چوہدری صاحب انہوں نے اپنا پورازور لگایا کہ سانحہ ماڈل ٹا?ن کے شہدا کو جن کی تعداد 14اس وقت تھی جو موقع پر ہی شہید ہو گئے تھے ان کو انصاف مل سکے۔اور پھر اشتیاق چوہدری صاحب ایک بڑے پائے کے نہ صرف یہ کہ وکیل ہیں بلکہ ہیومن رائٹ کے حوالے سے بھی ایک تنظیم چلا رہے ہیں۔ ان کے کلائنٹس میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے پاس آتے ہیں، فیس دینے کے قابل نہیں ہوتے، ان کے سر پر وہ شفقت کا ہاتھ رکھتے ہیں۔وہ میاں نوازشریف کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ طاہر القادری صاحب سیاست کا میدان چھوڑ کر ایک سائیڈ پر کھڑے ہوگئے حالانکہ ان کے پاس سیاسی ورکر موجود ہیں،ان کی پارٹی میں سیاسی لیڈر بھی ہیں۔ کسی ایک کے حوالے پارٹی کر دیتے تو کتنا ہی بہتر ہوتا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ان میں موزوں ترین شخص اگر ہے تو وہ اشتیاق چوہدری صاحب ہیں۔یہ وہی وکیل ہیں جنہوں نے زینب قتل کیس (سانحہ قصور)لڑا تھا اور جیت کر بھی دکھایا تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے کیسز ان کے کریڈٹ پر ہیں۔مذہبی طور پر ادارہ منہاج القرآن ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی اولاد کے پاس ہے لیکن سیاسی ادارہ وہ کہاں گیا؟ وہ کہیں کھو گیا، کہیں گم ہو گیا، اگر وہ کسی سیاستدان کے حوالے کیا ہوتا جن کی تعداد پاکستان عوامی تحریک میں کافی زیادہ تھی ان میں جیسا بتایا کہ ایک اشتیاق چوہدری صاحب بھی ہیں۔طاہر القادری صاحب سیاست سے الگ رہتے لیکن پاکستان عوامی تحریک زندہ رہتی۔ اب بھی عوامی تحریک کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب تھوڑے سے بڑے دل کا مظاہرہ کریں تو یہ پارٹی ان لوگوں کے حوالے کر دیں جو ان کو چلانے کے خواہش مند ہیں۔