خیالات …ڈاکٹررابعہ نذیر
rabianazir01@yahoo.com
سچ سننے اور کہنے کا حوصلہ ہر ایک میں نہیں ہوتا۔ ہو بھی تو کیسے؟ اپنے دل پر شرمندگی اور خجالت کا پتھر رکھنا پڑتا ہے، اگر کوئی آپ کی غلطی کی طرف اشارہ کرے اور آپ سچ ماننا چاہیں تو۔اکثر اوقات کسی کی دل آزاری کا خدشہ ہوتا ہے۔ سینیئر عہدیداروں کے ساتھ تصادم کا خوف بھی ہو سکتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود مجھے شدت سے احساس ہے کہ ایک بیٹی کی ماں ہونے کی حیثیت سے یہ اخیر درجے کی لاپرواہی اور خودغرضی ہو گی، اگر میں ان موضوعات پر قلم نہ اٹھاؤں جن کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہمارے بچے اور خصوصا بچیاں نسل در نسل نا انصافی اور ظلم سہتی آ رہی ہیں۔مسائل تو بے بہا ہیں، مگر کچھ… مسائل اس طرح کے ہیں جو نا صرف ہمارے معاشرے کی پستی کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ نسل در نسل ایک خزانے کی طرح کچھ اس انداز سے منتقل کئے جاتے ہیں کہ اگر کوئی اس کا نشانہ بن جائے تو اس کو بتایا جا سکے کہ کیا ہم نے تم کو خبر نہ کی تھی، اور اگر کوئی جبر کے خلاف آواز اٹھانا چاہے تو اس کو پہلی نسلوں میں آواز اٹھانے کے ہولناک نتائج کی کہانی سنائی جا سکے ۔تفصیل میں جانے کے لئیے تو کتابیں بھی کم پڑ جائیں گی، کچھ چیدہ چیدہ معاملات کی نشاندہی کچھ واقعات سے کرتی ہوں…میں نے دیکھا!!
لیپ ٹاپ پر کچھ سکھانے کی خاطر وہ اپنی کرس کافی قریب لے آیا۔ لڑکی کی شکل صاف نشاندہی کر رہی تھی کہ وہ کوفت کا شکار ہے۔ اس نے باس کا کام پورا نہ ہونے کی تلوار اس کے سر پر لٹکا رکھی تھی…!
میرا آپ سے ایک نہیں کئی سوال ہیں …کیا لڑکی نے اس کو مناسب فاصلہ رکھنے کے لئیے کہا؟کیا لڑکی کہہ سکتی تھی؟کیا وہ اندھا تھا ؟کیا وہ اس بات سے بیخبر تھا کہ مناسب فاصلہ رکھ کے کام کرنا اس کا فرض تھا؟
میں نے دیکھا۔وہ آفس میں موجود ہر کم عمر لڑکی سے کہتا ، "آپ میری شادی نہیں کرواتیں!سوالات:کیا کوئی مہذب لڑکی اس کو کہے گی کہ میں آپکی ماں نہیں ہوں؟کیا آفس میں موجود ہر کم عمر لڑکی خود دعوت دیتی ہے کہ اس سے اس طرح بات چیت کی جائے؟کیا ایسا شخص پسند کرے گا کہ اس کی چھوٹی بہن یا بیٹی سے اس کی اپنی عمر کا مرد ایسے بات کرے؟میں نے دیکھا !!
میٹنگ کے نام پر ساٹھ سالہ باس خواتین ریسیپشنسٹ سے کہتا ہے پہلے کوئی گانا سنائیں۔ تمام خواتین جن میں سے کچھ بیس سے تیس سال کی عمر کی ہیں اپنی باری پہ کچھ سنائیں گی۔ ان کے دبے دبے احتجاج کے باوجود گانا سنا جائے گا۔سوالات۔20 سے 30 ہزار ماہانہ لینے والی خاتون یا لڑکی کہاں سے اتنا حوصلہ لائے کہ انکار کر دے؟کوئی گارنٹی ہے کہ اس جگہ کو چھوڑنے کے بعد اس کا واسطہ بہتر لوگوں سے پڑے گا؟
میں نے دیکھا۔تھرڈ ائیر میڈیکل کالج کے دوران جو مرد سرجن آپریشن تھیٹر میں موقع پاتے ہی اکیلی لڑکی کے گرد بازو کا حصار بنا کر ساتھ لگا لیتا تھا، آج موٹیویشنل سپیکر بن کر اخلاقیات پر درس دیتا ہے۔
سوالات ۔کیا آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ لوگ تو بدل جاتے ہیں میرا سوال بے وجہ ہے؟کیا ایک تھرڈ ائیر کی سٹوڈنٹ سرجن کو تھپڑ مار سکتی ہے؟ اگر ہاں تو کتنی لڑکیاں مرد اسسٹنٹ پروفیسرز کو تھپڑ مارنے کا حوصلہ رکھتی ہیں ؟
آج کے لئیے اتنا ہی کافی ہے۔ باقی سچ کسی اور وقت کے لئیے اٹھا رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک مرد بحیثیت گھر کے سربراہ کے ، اپنے گھر میں عورت کو عزت نہیں دیں گے، آپ کے گھر کے مرد اور لڑکے کبھی کسی عورت کو عزت نہیں دیں گے۔ نہ گھر کے اندر ، نہ ہی گھر کے باہر۔ یہ ایسا زہر ہے جو نسل در نسل ہم نہ صرف پال رہے ہیں بلکہ جب بھی ہماری توجہ اس معاملیکی سنگینی کی طرف کی جاتی ہے، ہم عورت کو ماں کے روپ میں مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں۔ ماں اس وقت تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہے جب وہ آزادی اور خود مختاری کے ساتھ اس ذمہ داری کو پورا کر سکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس وقت نہیں جب وہ گھر کے سربراہ سے بچوں اور رشتہ داروں کے سامنے بے عزت ہوتی ہو۔
یہ لکھنے کی وجہ وہ تکلیف ہے جو میں نے اس وقت محسوس کی جب ایک مرد اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذمہ داریوں کے بوجھ میں جکڑی ہوئی خواتین سے گانے کی فرمائش کر رہا تھا۔ اور وہ رنج جو میں نے اس وقت محسوس کیا جب ایک دوسرا مرد اپنے سے آدھی عمر کی کولیگ سے کہہ رہا تھا کہ آپ میری شادی نہیں کرواتیں۔
بہرحال، کوشش کریں کہ اس دنیا سے جانے سے پہلے اس معاشرے کو اس حالت سے بہتر کر لیں ، جس میں آپ کو یہ منتقل کیا گیا۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ چونکہ میں لکھتی ہوں، آپ کو سوچنے کی طرف راغب کرنا میں فرض سمجھتی ہوں ْْ!!