اب یہ بات تو فی الوقع پتھر پر لکیر بن گئی ہے کہ آئندہ ماہ آٹھ فروری کا سورج ملک میں عام انتخابات کیلئے پولنگ بوتھوں کے سامنے عوام کے کھڑا ہونے کی عکاسی کرتے ہوئے ہی طلوع ہو گا۔ التواء کو آگے لے جانے کی ساری سازشیں تو دھری کی دھری رہ گئی ہیں۔ سینیٹ میں اس مقصد کیلئے یکے بعد دیگرے تین قراردادیں لائی گئیں۔ پہلی قرارداد یکایک منظور بھی کرلی گئی‘ اسکی کاپی الیکشن کمیشن کو بھی فراہم کر دی گئی اور اس قرارداد کی روشنی میں 8 فروری کے انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کرانے کیلئے الیکشن کمیشن پر چیئرمین سینیٹ کو بھجوائے گئے مراسلہ کے ذریعے دبائوبھی ڈلوالیا گیا مگر:
نہ وہ سمجھے‘ نہ ہم آئے کہیں سے
پسینہ پونچھیئے اپنی جبیں سے
کے مصداق سخت سرد موسم میں بھی ان قراردادوں کے محرکین کیلئے ’’پسینہ پونچھیئے اپنی جبیں سے‘‘ کی نوبت آگئی۔ پھر انتخابات آگے لے جانے کی خواہشات پر اوس پڑنے سے ان خواہشات کے اسیروں کے چہروں پر مایوسی جھلکنے لگی تو انہی لمحات میں ایران نے یکایک بلوچستان کے ایک گائوں پر میزائل برسا دیئے جس کا پاکستان کو بھی اسی کے لہجے میں فوری جواب دینا پڑا تو اس سے جنم لینے والی کشیدگی کی فضا نے انتخابات مؤخر کرانے کے خواہش مندوں کے دلوں میں اپنے مخصوص مقصد کی تکمیل کیلئے امید کی جوت پھر جگا دی۔ خود ہمیں بھی دھڑکا لگا کہ پاکستان اور ایران کے مابین کشیدگی مزید تلخ ہو گئی تو پھر آٹھ فروری والی پتھر پر لکیر کی حفاظت سے زیادہ ملک کی حفاظت کی ہی فکرلاحق ہو گی مگر شاید التوائی خواہش مندان کے دن ہی برے چل رہے تھے کہ ایران کو پاکستان پر میزائل حملے کی اپنی غلطی کا اگلے ہی روز احساس ہو گیا اور دونوں ممالک نے باہمی معاملات بات چیت سے طے کرنے پر اتفاق کرلیا چنانچہ دونوں ممالک کے مابین منقطع سفارتی تعلقات بھی بحال ہو گئے اور دونوں ممالک کی پروازیں بھی ایک دوسرے کے ہوائی اڈوں پر اترنے لگیں۔
ایران کی اس شرارت کا کیا پس منظر تھا اس پر انشاء اللہ اگلے کسی کالم میں بات ہو گی۔ فی الوقت ہمارا پورا دھیان 8 فروری کے انتخابات پر ہے جن کا انعقاد یقینی ہوتا دیکھ کر انتخاب میں اترنے والی ہر سیاسی جماعت کو اپنے اپنے منشور عوام کے سامنے پیش کرنے کی فکرلاحق ہو گئی ہے۔ سب سے پہلے جماعت اسلامی کا منشور منظرعام پر آیا جس میں سسٹم کا سارا گند ماضی کی دو اقتداری جماعتوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ پھر تحریک تکمیل پاکستان نے اپنے منشور کو ہوا لگائی اور جہانگیر ترین نے بطور خاص غریب عوام کو تین سو یونٹ فری بجلی کی فراہمی کا اعلان کیا۔ اقتصادی ماہرین کی نپی تلی رائے ہے کہ کروڑوں عوام کو تین سو یونٹ بجلی مفت فراہم کرنا عملاً ممکن ہی نہیں ہے مگر عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا بہرحال یہ ایک موثر ٹریپ تو تھا چنانچہ انتخابی مہم پر شہر شہر گھومنے والے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے پارٹی منشور کے باضابطہ اجراء سے پہلے عوام کو تین سو یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے کا نعرہ لگانا ضروری سمجھا۔ اس بھیڑچال میں مسلم لیگ (ن) بھی بھلا کیوں پیچھے رہتی چنانچہ مریم نواز نے یہ سوچ کر کہ پوائنٹ سکورنگ کی سیاست میں ہم کیوں پیچھے رہ جائیں‘ اپنے ایک پبلک جلسے میں دو سو یونٹ بجلی مفت دینے کا اعلان کر دیا۔ اگلے روز جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو احساس ہوا کہ یہ اعلان تو بیک فائر ہو گیا ہے تو مریم نواز نے اپنے اگلے جلسے میں یہ کہہ کر پوائنٹ سکورنگ کا حساب برابر کردیا کہ مسلم لیگ (ن) بھی اقتدار میں آکر غریب عوام کو بجلی کے تین سو یونٹ ہی مفت فراہم کریگی۔ چنانچہ اب یہ ذمہ داری عوام کے کندھوں پر آگئی ہے کہ ان تینوں جماعتوں میں سے کسی کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں وہ تین سو یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے کے اعلان کو عملی جامہ نہ پہنانے پر اس کا کیا حشر کرتے ہیں۔
اسی شورا شوری میں پیپلزپارٹی کے بیرسٹر عامر نے مجھے پیپلزپارٹی کے منشور کی پی ڈی ایف فائل سینڈ کرکے خواہش ظاہر کی کہ میں اس منشور پر اپنی تجزیاتی نگاہ ضرور ڈالوں چنانچہ میں نے اس منشور کی ورق گردانی شروع کی تو غریب گھرانوں کیلئے بجلی کے تین سو یونٹس کی مفت فراہمی کا دلفریب وعدہ اس منشور میں بھی شامل پایا۔ اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے کا یقین دلانے کیلئے پیپلزپارٹی کو اپنے منشور میں یہ اعلان بھی شامل کرنا پڑا کہ مفت بجلی کی فراہمی کیلئے سرمایہ ہم کاربن کریڈٹ سے حاصل ہونیوالی آمدنی سے فراہم کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور کا باضابطہ اعلان ابھی پانچ روز بعد ہونا ہے۔ دیکھیں وہ تین سو یونٹ بجلی کی فراہمی کیلئے کیا جگاڑ لگاتی ہے اور کیا نسخہ کیمیا سامنے لے کر آتی ہے تاہم ان قابل ذکر جماعتوں کے پے در پے ہونیوالے انتخابی جلسوں سے 8 فروری کے انتخابات کے ہر صورت انعقاد کی تو گواہی مل رہی ہے سو پتھر پر لکیر کوثابت کرنے کیلئے الیکشن کمیشن بھی جانفشانی کے ساتھ سرگرم عمل ہے جس نے امیدواروں کی حتمی فہرست بھی جاری کر دی ہے۔ سات ہزار 832 پولنگ سٹیشنوں کو انتہائی حساس قرار دیکر وہاں حفاظتی اقدامات کیلئے 49 ارب روپے کے فنڈز میں مزید ساڑھے تین ارب روپے شامل کرنے کا بھی تقاضا کر دیا ہے اور ملک بھر میں تعینات ہونیوالے انتخابی عملہ کی تربیت کا سلسلہ بھی شدومد کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔
اب الیکشن کمیشن کو چیلنج یہ درپیش ہے کہ شفاف انتخابات کی ذمہ داری پر ایک دوسرے کی متحارب سیاسی جماعتوں کو مطمئن کیسے کرنا ہے۔ اس کیلئے خدا جانے کسی نے کوئی الٹا سیدھا مشورہ دیا ہے یا الیکشن کمیشن کی کوئی اپنی منصوبہ بندی ہے کہ اسکی جانب سے گزشتہ روز پولنگ کیلئے ’ای ایم ایس‘‘ (الیکشن مینجمنٹ سسٹم) کو بروئے کار لانے کا اعلان کیا گیا جس کے تحت ظاہر یہ کیا گیا ہے کہ ای ایم ایس کے ذریعے ملک بھر سے انتخابی نتائج الیکشن کمیشن کو بروقت موصول ہو جائیں گے جس کیلئے الیکشن سٹاف کو تمام ضروری لوازمات فراہم کئے جا رہے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن کے نزدیک یہ سسٹم اتنا جامع اور شفاف ہے تو پھر انتخابی نتائج کا پولنگ کے اگلے روز 9 فروری کو رات ایک بجے اعلان کرنا کیوں ضروری گردانا گیا۔ اگر ’’ای ایم ایس‘‘ کے ذریعے انتخابی نتائج ملک بھر سے بروقت موصول ہونے کا اتنا ہی یقین ہے تو انتخابی نتائج کی نوبت 9 فروری کو لانا چہ معنی دارد۔ نتائج کا اعلان آٹھ فروری کو ہی رات بارہ بجے سے پہلے پہلے کیوں نہیں ہو سکتا۔ کہیں کوئی ایسی حکمت عملی تو نہیں بن گئی کہ 2018ء کے انتخابات جس طرح ’’آر ٹی ایس‘‘ کا تجربہ کرکے متنازعہ ہونے کی راہ نکالی گئی‘ اسی طرح اب 8 فروری کے انتخابات پر متعلقین کو ’’ای ایم ایس‘‘پر سوالات اٹھانے کا موقع فراہم کر دیا جائے تاکہ شفاف انتخابات کا سہانا خواب آنکھوں میں کھٹکتا ہی رہے۔ میاں نوازشریف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا پارٹی بیانیہ ’’آر ٹی ایس‘‘ کی بنیاد پر ہی تو کھڑا کیا تھا جن کے بقول آر ٹی ایس کو بٹھا کر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی میں نقب لگائی گئی۔ اب کیا ’’ای ایم ایس‘‘ کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے مقابل کسی اور کو اپنا بیانیہ تراشنے کا موقع فراہم کرنا مقصود ہے۔ اسکے آثار تو الیکشن سٹاف کی جانب سے دوران تربیت انٹرنیٹ کی مناسب سہولتیں دستیاب نہ ہونے کی بنیاد پر ’’ای ایم ایس‘‘ پر کئے جانیوالے تحفظات کے اظہار کے باعث ابھی سے پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جناب! آٹھ فروری کے انتخابات پتھر پر لکیر ہیں تو اب دودھ میں مینگنیں ڈالنے کی کوشش تو نہ کریں۔ خدا کیلئے جمہوری انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد پختہ ہونے دیں۔ ’’حاصل‘‘ کو لاحاصل بنانے کی کوشش سے تو اب بہرصورت گریز کیا جانا چاہیے۔