2024ء کو طلوع ہوئے ابھی چند دن ہی گذرے ہیں لیکن ایک ایسا انکشاف اْس کی لوحِ تقویم کا نوشتہ بن چکا ہے جسے ’’اْمّ الانکشافات‘‘ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ اخبار نویس اڈیالہ جیل سے یہ چونکا دینے والی خبر لائے ہیں کہ ’’عمران خان سیاستدان‘‘ ہیں۔ مجھے گماں گزرا کہ شاید ثاقب نثار کی طرف سے ’’صادق اور امین‘‘ قرار پانے کے بعد اب جیل میں آراستہ کسی عدالت نے اْنہیں ’’سیاستدان‘‘ کا تمغہ اعزاز بھی عطا کردیا ہو لیکن پتہ چلا کہ خود عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ’’میں سیاستدان ہوں اور سیاسی آدمی ہمیشہ بات چیت کے لئے تیار رہتا ہے۔‘‘
مجھے داغ دہلوی کا ایک ’بے محل‘ سا شعر یاد آیا۔
دی موذن نے شب وصل اذاں پچھلے پہر
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
پی ٹی آئی 1996ء میں قائم ہوئی۔ کوئی دس ماہ بعد، فروری 1997ء میں انتخابات کا میدان سجا تو خان صاحب، سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، اسلام آباد، میانوالی، لاہور (2) اور کراچی (2) کے آٹھ حلقوں سے اکھاڑے میں اترے۔ سات حلقوں میں مسلم لیگ (ن) اور ایک میں ایم کیو ایم سے ہار گئے۔ آٹھوں حلقوں سے مجموعی طورپر 35352 ووٹ لئے اور ضمانتیں ضبط کرا بیٹھے۔ یہ شکست اْن کے دل میں زہریلے سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ گئی۔ اْنکے دماغ میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ اقتدار کے قلعے پر کمند پھینکنے کیلئے انتخابات موزوں مقام نہیں۔ اْن کی ’’جمہوری انقلابی‘‘ جماعت کو دوسرا امتحان اکتوبر 1999ء میں پیش آیا جب جنرل مشرف نے اپنی نوکری بچانے کیلئے منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹ کر دستورِ پاکستان کو بھاری بوٹوں تلے روندا اور ریاست پر قبضہ کرلیا۔ روایتی سیاست کی نفی کرنیوالی پی ٹی آئی کے سربراہ نے جمہوریت کْشی اور وزیراعظم کو کسی کال کوٹھڑی میں ڈال دینے کے بارے میں کبھی ایک جملہ بھی نہ کہا۔ آئو دیکھا نہ تائو، اپنی نوزائیدہ جماعت مشرف کی گود میں ڈال دی۔ مشرف نے اْسکے منہ میں وزارت عظمی کی چْوسنی ڈالی اور خان صاحب کو اپنے مکروہ عزائم کی چتا میں جھونک دیا۔ رسوائے زمانہ ریفرنڈم کی والہانہ حمایت کے بعد خدمت گذاری کے صلے میں سو نشستیں مانگیں تو مشرف آمادہ نہ ہوئے۔ پی ٹی آئی کے منہ سے چوسنی نکال پھینکی۔
خان صاحب طفلِ شیرخوار کی طرح روتے بسْورتے دور چلے گئے۔ دیرینہ تعلق کا بھرم رکھتے ہوئے مشرف نے میانوالی کی نشست دلا دی۔ خان صاحب کے لئے یہ باور کرانے کا سنہری موقع تھا کہ پارلیمانی سیاست میں ایک تازہ دم ’’سیاستدان‘‘ آ گیا ہے لیکن خان صاحب کوئی ادنی سا نَقش جمائے بغیر، آخری پہر مستعفی ہوکر گھر چلے گئے۔
مشرف سے دل برداشتگی انہیں مشرف مخالفین کے قریب لے گئی۔ جولائی 2007ء میں نوازشریف کی بلائی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن پہنچ گئے اور نوازشریف ہی کی تحریک پر آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (APDM) کا حصہ بن گئے۔ تب تحریکِ انصاف کی عمر گیارہ سال ہوچکی تھی لیکن عمران خان نامی ’’سیاستدان‘‘ بے خبر تھا کہ ایک بار وزیراعلیٰ اور دو بار وزیراعظم رہنے والا نوازشریف ’’کرپٹ، چور اور ڈاکو‘‘ ہے۔
2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے ’’سیاسی بلوغت‘‘ کا مظاہرہ کیا۔ 2013ء میں قابلِ قدر کامیابی حاصل کی۔ ایک بڑی جماعت کے لیڈر کے طورپر قومی اسمبلی میں پہنچے۔ سیاستدان ہوتے تو ایوان میں حشر بپا کئے رکھتے۔ پاکستان کا ’’چرچل‘‘ بن کر ابھرتے لیکن ایوان کو بے آب ورنگ سمجھتے ہوئے سڑکوں کا رْخ کیا اور کامل پانچ سال یہی بے ذوق مشغلہ اپنائے رکھا۔ وزیراعظم نوازشریف چل کر اْنکے گھر گئے لیکن خان صاحب کے’’ جوہر ِسیاست‘‘ نے جھْرجھری تک نہ لی۔ 1997ء کی شکست نے اْنہیں سْجھا دیا تھا کہ ایوانِ اقتدار کا راستہ کس مہ جبیں کی گلی سے پھوٹتا ہے۔ اْن کا غنچہ آرزو اْس وقت کھلا جب شجاع پاشا، ظہیرالاسلام، فیض حمید اور باجوہ نے، مشرف کے لگائے زخم کی مرہم کاری شروع کی۔ چوسنی نکال کر تازہ خالص دودھ سے لبا لب بھری بوتل اْن کے منہ سے لگادی۔ وہ غٹاغٹ پیتے اور چار برس تک سیاسی حریفوں کو ٹکٹی پر چڑھاتے رہے۔ نہ وہ ایوان کے باہر سیاستدان تھے، نہ ایوان کے اندر حزب اختلاف کا توانا سیاستدان بن پائے نہ وزیراعظم بن کر اْن میں سیاستدان کی رَتی بھر خْو بو پیدا ہوئی۔ جہاں بھی رہے، خود اپنے آپ ہی کو سجدہ کرتے رہے۔ خودپرستی اْن کا ہْنر ٹھہری۔ خود کو پیغمبرانہ اوصاف کا حامل اوتار اور ولی اللہ خیال کرتے ہوئے ہر انسان کو غلط کار، بددیانت، چور اور ڈاکو قرار دیتے رہے۔ اپوزیشن سے ہاتھ ملانا کارِ گناہ جانا۔ اپریل 2022ء میں قراردادِ عدم اعتماد کے بعد سے آج تک، اْن سے کوئی ایک بھی ایسا کارِخیر سرزد نہیں ہوا، جسے پختہ کار سیاسی ہنرکاری سے دْور کی بھی نسبت ہو۔ ایوانوں سے مستعفی ہوتے، اسمبلیاں توڑتے، دھرنے دیتے، ریلیاں نکالتے، حریفوں کو گالیاں دیتے تھک گئے تو فوج پر تبرّیٰ کرنے کیلئے سرکاری خزانے سے دشنام طرازوں کا ایک لشکر پالا۔ ناکامی ونامرادی سے اعصاب چٹخنے لگے تو جنرل عاصم منیر کا راستہ روکنے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔ منہ کی کھائی تو حکم صادر فرمایا ’’میں پکڑا جائوں تو کوئٹہ سے چکدرہ تک دفاعی تنصیبات پر چڑھ دوڑو۔ شہداء کے مجسموں اور یادگاروں کو آگ لگادو۔‘‘ منصوبہ یہ تھا کہ باہر کی فتنہ گری، ادارے کے اندر بھونچال پیدا کر دے گی، عمرعطا بندیال کو متحرک کیا جائے گا اور عاصم منیر کا تختہ الٹ کر کسی من چاہے کو چیف بنادیاجائے گا۔ لیکن قادرِ مطلق نے اپنا فیصلہ صادر کیا اور چارسو فقط عبرت کی داستانیں رہ گئیں۔
خان صاحب کا جوہر، اسی مٹی کے خمیر سے اٹھا ہے۔ وہ دس جنم لے کر بھی سیاستدان نہیں بن سکتے۔ سیاسی زندگی کے ہر رنگ، ہر روپ میں وہ اپنی گفتگو، اپنے کردار وعمل اور اپنی افتاد طبع سے واضح کرچکے ہیں کہ وہ کسی پہلو، کسی زاویے سے ادنیٰ ترین درجے کے سیاستدان بھی نہیں۔ انہوں نے فوج کو بھی گالی دی۔ انہوں نے عدالت کو بھی گالی دی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو بھی گالی دی، انہوں نے ہر سیاسی جماعت کے سرکردہ راہنمائوں کو گالی دی اور اسی کو اپنے ہْنر کا شاہکار جانا۔
اگر واقعی اڈیالہ جیل کی تنہا اداس راتوں نے خان صاحب کی کایا کلپ کردی ہے تو وہ اخبار نویسوں کو بتادیں کہ ’’ہاں۔ میں سیاستدان ہوں اور سیاستدان کبھی بات چیت کے دروازے بند نہیں کرتا۔ سب کو چور ڈاکو کہنا میری غلطی تھی۔ میں قوم وملک کی خاطر نوازشریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور باقی سب سے بھی غیرمشروط بات چیت کیلئے تیار ہوں۔‘‘ چونکہ یہ بات صرف ایک سیاستدان ہی کہہ سکتا ہے اس لئے خان صاحب کبھی نہیں کہیں گے۔
لمحہ بھر کو سوچیے! آج عمران خان کی مسند پر گوہر علی خان، معراج محمد خان کی مسند پر عمرایوب خان، نسیم زہرہ کی مسند پر رئوف حسن، مخدوم جاوید ہاشمی کی مسند پر چوہدری پرویز الٰہی اور جسٹس وجیہہ الدین کی مسند پر سردار لطیف کھوسہ تشریف فرما ہیں۔ چراغ کے انتخابی نشان سے سفر شروع کرنے والی پی۔ٹی۔آئی بلّے سے ہوتی ہوئی گھڑیالوں، موروں، چارپائیوں اور جوتوں میں بٹ گئی ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی مقام عبرت ہوسکتا ہے؟ کیا اپنے آپ اور اپنی جماعت کو اس انجام سے دوچار کرنے والا شخص ’’سیاستدان‘‘ کہلا سکتا ہے؟
٭٭٭٭٭