قیام پاکستان سے لے کر 1977ء کے انتخابات تک ہمیں نہیں پتہ کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔ تاریخ میں بہت کچھ محفوظ ہے۔ اقلیت کو اکثریت میں بدلنے اور اکثریت کو اقلیت میں بدلنے، مقبولیت کو عدم قبولیت سے دوچار کرنے کا فن ہم نے شروع میں ہی سیکھ لیا تھا۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر بانی پاکستان کی بہن کی مقبولیت پر قابو پا کر انھیں قبولیت عطا نہیں ہو سکی تو باقی کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہم ان واقعات کے عینی شاہد نہیں لیکن 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے 2018ء کے انتخابات تک سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا ہے۔ ہر انتخاب سے قبل ایک خاص قسم کا ماحول بنایا جاتا ہے اور محکمہ زراعت کی لیبارٹری میں ہر دفعہ نت نئی پولیٹیکل انجینئرنگ کی جاتی ہے جسے صرف چند لوگ محسوس کر سکتے ہیں دیکھ نہیں سکتے۔ عوام کو دوچار سال بعد پتہ چلتا ہے کہ ہوا کیا ہے۔ اس لیبارٹری میں زمانہ امن میں بھی ہر وقت ریسرچ ہوتی رہتی ہے۔ کس کی حکومت کو جلا بخشنی ہے، کس کو ڈسٹرب کرنا ہے، کس کو عوام کی نظروں میں گرانا ہے اور کس کو عوام کی پلکوں پر بٹھانا ہے۔ ہر قسم کے فارمولے تیار کیے جاتے ہیں۔ ایسی ایسی کلوننگ کی جاتی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جس طرح سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے نت نئی ایجادات کے ذریعے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے، ہماری قومی لیب نے بھی ایسے ایسے شاہکار تخلیق کیے ہیں کہ دنیائے سیاست میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ ویسے ہم ہر میدان میں زوال کا شکار ہیں لیکن سیاسی کلوننگ میں دنیا ہمارے قریب سے بھی نہیں پھٹک سکتی۔ 1985ء میں جنرل ضیاالحق کے دور میں اسی لیبارٹری نے ایسا شاہکار سیاسی نسخہ تیار کیا کہ اگر ضیاالحق زندہ ہوتے تو آج تک برسر اقتدار رہتے۔ لیب میں سائنسدانوں نے سیاسی پارٹیوں کی اجارہ داری سرے سے ہی ختم کرنے کیلئے غیر جماعتی انتخابات کا ڈول ڈالا۔ یہ ایجاد اتنی کامیاب ٹھہری کہ چاروں صوبوں اور مرکز میں من پسند حکومتیں قائم کرنے میں رتی برابر بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑا البتہ اس الیکشن کا بائیکاٹ کرنیوالے آج تک پچھتا رہے ہیں اور اس الیکشن کے نووارد آج تک سیاست کے افق پر چمک رہے ہیں۔ 1988ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی عوامی مقبولیت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ دباؤ کے باوجود پیپلزپارٹی کی مکمل قبولیت نہیں تھی۔ مرکز میں سادہ اکثریت کے باوجود تین دن بعد ہونیوالے صوبائی انتخابات میں راتوں رات لیب میں ایسا مکسچر تیار کر لیا گیا کہ پنجاب کا نتیجہ پلٹ گیا جس کے پس منظر میں پاکستان کی صدارت اور پنجاب کی حکومت نے پیپلز پارٹی کی ایک نہ چلنے دی اور صدر مملکت نے 1990ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو چلتا کیا۔ اتنی دیر میں کارآمد ریسرچ کے ذریعے پیپلزپارٹی کے خلاف عوام کا دل کھٹا کرنے کیلئے بہت سارا مواد ایجاد کیا جا چکا تھا لہذا 1990ء کے انتخابات میں پہلی بار آئی جے آئی تخلیق ہوئی جس کے بارے اصغر خان کیس کے ذریعے بعد میں انکشاف ہوا کہ کتنا بڑا سرمایہ سیاستدانوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان انتخابات میں ایک بار پھر من پسند رزلٹ حاصل کرنے کیلئے کامیاب سیاسی کلوننگ نے ثابت کر دیا کہ ہمارے سائنسدان جو چاہیں بنا سکتے ہیں۔ نئی تخلیق کے نتیجے میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ جب انھوں نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے تو پنجاب میں معصوم وزیر اعلی غلام حیدر وائیں کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروانے کا کامیاب تجربہ کر کے چند دنوں میں سیاسی عمارت کو زمین بوس کر دیا گیا۔ پھر وفاقی حکومت کو ختم کر کے نئے انتخابات کی راہ نکالی گئی۔ 1993ء میں بینظیر بھٹو کو دوسری بار چانس دیا گیا لیکن وہ بھی وقت پورا نہ کر سکیں اور 1997ء میں قوم کو ایک اور موقع دیا گیا۔ قوم آئے روز کے انتخابات سے تنگ آ چکی تھی۔ قوم نے بیزاری کا اظہار کیا یا یہ کہہ لیں کہ عوام میں بیزاری پیدا کر کے دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کا ٹارگٹ پورا کر لیا گیا۔ ان انتخابات میں عوام نے سسٹم سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی تاریخ کا سب سے کم تر ٹرن آئوٹ دیا۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ 22فیصد ٹرن آوٹ تھا لیکن سرکاری اعدادوشمار بھی تسلیم کر لیے جائیں تو ان انتخابات میں سب سے کم ووٹ پڑے۔ اس رولے غولے کے الیکشن میں میاں نواز شریف دوتہائی اکثریت لے کر تاریخ کے مضبوط ترین حکمران بن گئے۔ انھوں نے اسمبلیاں توڑنے کے اختیارات ختم کر دیے اور آئین میں من مانی تبدیلیاں کرکے اختیارات اپنے گرد اکٹھے کر لیے۔ پھر 1999ء میں بھی قوم نے دیکھا کہ کس طرح دھرتی اوپر نیچے ہوئی۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ملک سے باہر چلے گئے اور لیبارٹری میں نئی سیاسی کلوننگ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ اب کی بار لیبارٹری سائنسدانوں کو نئے اور انوکھے ٹارگٹ کا سامنا تھا پاکستان کے سیاسی نظام میں راج کرنے والی دونوں جماعتوں کو فارغ کر کے تیسری جماعت کو قابل قبول بنانا مقصود تھا لہٰذا نظام کی خوب تلپٹ کی گئی اور آخر کار پہلے ریفرنڈم سے پرویز مشرف کو صدر بنایا گیا پھر مسلم لیگ ق معرض وجود میں آئی اور 2002ء کے انتخابات میں اقتدار ق لیگ کے حوالے کر دیا گیا۔ 2008ء اور 2013ء کے انتخابات بھی ہمارے سامنے ہیں اور پولیٹیکل انجینئرنگ بھی 2018ء کے انتخابات میں لیبارٹری میں ایک اور بڑا تجربہ کیا گیا لیکن اس تجربے میں سائنس دان بے نقاب ہو گئے۔ اب پچھلے اڑھائی تین سالوں سے لیبارٹری میں دن رات تین تین شفٹوں میں کام ہو رہا ہے لیکن سائنسدانوں کو کامیابی نہیں مل رہی۔ نت نئے تجربات کیے جا رہے ہیں طرح طرح کے محلول تیار کرکے ایک دوسرے کے ساتھ میچ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن بات بن نہیں پا رہی۔ اب جان پر بنی ہوئی ہے کہ کچے پکے فارمولے کو ہی ٹیسٹ کر لیا جائے یا سائنسدانوں کو مزید ریسرچ کرنے کا موقع دیا جائے۔ نئے فارمولے سے نئی ایجاد کوئی بھی شکل اختیار کر سکتی ہے۔