لفظ جہاد اور مجاہدہ کسی مقصد کی تکمیل میں اپنی پوری طاقت صرف کرنے اور اس کے لیے مشقت برداشت کرنے کے معنوں میں آتا ہے ۔ اور اس میں پورا اخلاص اللہ کے لیے ہو اور نمود و نمائش بالکل بھی نہ ہو ۔
نفس امارہ جو ہر وقت انسان کو برائی کی طرف راغب کرتا ہے اور انسان کو اللہ تعالی کی نا فرمانی کے لیے پوری کوشش کرتا ہے ۔
ایک مرتبہ جنگ سے واپسی پر حضور نبی کریم ﷺ نے مجاہدین سے فرمایا :
’’ خوش آمدید تم ایک چھوٹے جہادکی طرف سے بڑے جہا د کی طرف آ گئے ہو ۔ صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ وہ بڑا جہاد کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا بندے کا اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین سے دریافت کیا تم پہلوان کسے کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا جس کو لوگ بچھاڑ نہ سکیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں پہلوان وہ ہے جو غصے میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے ۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت ، طویل قراء ت کے ساتھ نماز کا ادا کرنا اور کلمہ طیبہ کی تکرار کرنا ان تین چیزوں میں سے ایک میں ضرور مشغول رہیں ۔ اور کلمہ لا سے اپنے نفس کی خواہشات کے معبودوں کی نفی کرنی چاہیے اور اپنی تمام مرادوں اور مقاصد کو دور کرنا چاہیے ۔ اپنی مراد کا دعوی کرنا اپنی الوہیت کا دعوی کرنا ہے سینہ کی وسعت میں کسی مراد کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے اور کوئی ہوس قوت خیالیہ میں نہیں رہنی چاہیے تا کہ بندگی کی حقیقت حاصل ہو جائے ۔ اپنی مراد کا طلب کرنا گویا اپنے مولی کی مراد کو دفع کرنا اور اپنے مالک کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے اس امر میں اپنے موالیٰ کی نفی اور خود مولیٰ بننے کا اثبات ہے اس امر کی برائی اچھی طرح معلوم کر کے اپنی الوہیت کے دعوی کی نفی کرو تا کہ تمام ہوا و ہوس سے کامل طور پر پاک ہو جائو اور طلب مولیٰ کے سوا تمہاری کوئی مراد نہ رہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : ’’ اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے ‘‘۔ اللہ تعالی اپنا قرب تلاش کرنے والے کی راہنمائی فرماتا ہے اور پھر اس کی خامیاں اور عیب اس پر واضح کر دیتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالی اپنے بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے نفس کے عیوب اس پر ظاہر کر دیتا ہے ۔