کالم = شہادت / راجہ شاہد رشید
raja.shahid1973@gmail.com
بچپن میں میرے اہل خانہ اور احباب و اساتذہ فرمایا کرتے تھے کہ کتب کا شیدائی ہے شاہد رشید ، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے دس ، بارہ سال کی عمر تھی جب میں نے کتابوں کو گلے لگایا تھا اور آج میں پچاس کو پہنچنے لگا ہوں مگر یہ ’’چسکا‘‘ آج بھی ویسا ہی ہے۔ آج میں پیر محمد ضیاء الحق نقشبندی جی کی کتاب ’’سہیل وڑائچ کہانی‘‘ پڑھ رہا ہوں ، پیارے پاکستان کے بے باک و دبنگ کالم نگار و تجزیہ کار محترم سہیل وڑائچ کے حوالے سے شاید ہی کوئی بات ایسی ہوگی جو رہ گئی ہو اور اس کتاب میں درج نہ ہو ، موصوف آٹھ نومبر 1962 کو جوہر آباد ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے اور بچپن میں پیار سے انہیں ’’بلو‘‘ بولتے تھے جبکہ ان کا اصل نام ہے سہیل سرور سلطان وڑائچ ، پھر یہ کیسے سہیل وڑائچ ہو کر ہر دل عزیز ، ہر آنکھ کے تارے ، سب کو پیارے اور سب سے نیارے ہو گئے ، یہ سب سمجھنے اور جاننے کے لیے پلیز پ یہ کتاب ایک بار ضرور پڑھیں پھر پڑھتے ہی رہیں گے یقینا اور اس کی قیمت بھی کوئی زیادہ نہیں ہے اگر کتاب کو دیکھیں تو بہت ہی کم ہے۔ میرے خیال میں یہ بے مثال اور لازوال کتاب جس نے نہیں پڑھی اس نے پڑھا ہی کیا ہے ، بالخصوص ادب و صحافت و سیاست کے طلبہ کے لیے اس کتاب کا مطالعہ لازم و ملزوم ہے۔ ملنے کا پتہ ہے : 03008406482 ، الامین پبلیکیشنز ، 307 شادمان لاہور۔ سہیل وڑائج بتلاتے ہیں کہ بچپن سے ہی قدرت نے مشاہدے کی قوت ودیعت کی تھی ، میں گھر کی منڈیر پر بیٹھ کر آنے جانے والوں کا بغور جائزہ لیا کرتا تھا۔ ان کے بیٹے کا نام ہے رحمت علی بخش وڑائچ ، فرماتے ہیں دعائیں مانگتا رہا بزرگوں سے بھی دعا کرائی شادی کے 12 سال بعد بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سنی تو وہ خوشگوار ترین لمحہ تھا ، کیفیت ہی بدل گئی ، ناممکن ممکن ہو گیا۔ مرشد اپنی کتب کے بارے میں بتلاتے ہیں کہ نو کتب لکھ چکا ہوں ، (1) چھوٹے صوبے پنجاب سے ناراض کیوں ، (2) مذہبی سیاست کے تضادات، (3) عدلیہ کے عروج و زوال کی کہانی، (4) جرنیلوں کی سیاست ، (5) غدار کون؟ ، (6) قاتل کون؟ ، (7) دی پارٹی از اوور ، (8) یہ کمپنی نہیں چلے گی ، (9) پرسنل فائل ، جو میرے انگریزی میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے ، ان میں سے کچھ ہندی ، سندھی اور انگریزی میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔ میری کتاب ’’قاتل کون؟‘‘ کے مندرجات سے یو این او کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھی اتفاق کیا تھا۔ ’’قاتل کون؟‘‘ اور ’’غدار کون؟‘‘ پر کافی رد عمل آیا ، ’’غدار کون؟‘‘ پر جنرل پرویز مشرف نے پریس کانفرنس بھی کی تھی پھر اس کے بعد یہ ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘ پر خاصا ایشو بنا رہا، کتاب کا ٹائٹل بدلنا پڑا اور کچھ مسائل پیدا ہوئے‘‘۔ پیر و مرشد سہیل وڑائچ ہی وہ واحد صحافی ہیں جنہوں نے مشرف کو منہ پر کہا تھا کہ آپ نے سکیورٹی نہیں دی اور آپ کو علم تھا کہ بینظیر کو مار دیا جائے گا، اس خوبصورت و لاجواب کتاب میں سہیل وڑائچ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے یہ بات مشرف کے منہ پر کہی تو وہ کہنے لگے میں نے بے نظیر کو سکیورٹی دی تو ہوئی تھی ، میں نے پوچھا کتنی گاڑیاں؟ بولے تین گاڑیاں ، میں نے پوچھا آپ کی کتنی گاڑیاں ہیں؟ تب وہ مسکرانے لگے‘‘۔ سہیل وڑائچ نے صدر زرداری کے منہ پر کہا تھا کہ سارا پاکستان آپ کو کرپٹ سمجھتا ہے، میں پورے پاکستان میں واحد آدمی ہوں جو آپ کو کرپٹ نہیں سمجھتا۔ اس شاندار اور باوقار کتاب میں مرشد وڑائچ نے یہ بھی فرمایا کہ’’ 2003 میں محترمہ بے نظیر بھٹو لندن میں صحافیوں کے ساتھ بیٹھی تھیں جب میں وہاں داخل ہوا تو مجھے دیکھتے ہی بولیں’’ دا رائزنگ سٹار آف جرنلزم‘‘ (دنیائے صحافت کا اْبھرتا ہوا ستارہ) بہت تعریف کرتی تھیں اور عالمی سیاست و صحافت پر ان کی گہری نظر تھی‘‘۔ عہد موجود میں صحافت کے سر بلند استاد و مرشد ہیں سہیل وڑائچ صحافیان کے پردھان جبکہ میرے لیے تو وہ پیر و مرشد سہیل سلطان ہیں جن کی حوصلہ افزائی ، رہنمائی اور پذیرائی سے ہی میں کالم لکھنے کے لائق ہوا ، یہ ان کی اعلیٰ ظرفی اور بڑا پن ہے جو مجھ ناچیز کو کہتے ہیں کہ راجہ صاحب ! میں اپ کو کسی بھی بڑے کالم نگار سے کم نہیں سمجھتا، وہ برملا مجھے کہتے ہیں کہ مجھے اپ سے محبت ہے، ان سے گفتگو کرتے ہوئے کوئی بات جب بحث کی صورت اختیار کرنے لگے تب مرشد مجھے میری جان کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، انہوں نے ہی مجھے ’’جنگ‘‘ میں لکھنے کے لیے کہا، وہ تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ میں نہ صرف جنگ بلکہ ’’جیو نیوز‘‘ کے ساتھ بھی بحیثیت تجزیہ کار و اینکر پرسن منسلک ہو جاؤں مگر میری مصروفیات اور چند وجوہات نے مجھے روک رکھا ہے۔ صحافت نگر میں ان کے کالم ، کمالات و کرامات اور اور ہدایات میرے لیے احکاماتٍ شیخ کا درجہ رکھتی ہیں۔ کلام شاعر بزبان شاعر کے مصداق مرشد مزید فرماتے ہیں کہ ’’محترمہ بے نظیر بھٹو سے میں نے پاکستان واپسی کے بارے میں سوال کیا تو ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے، میرا سوال یہ تھا کہ آپ پاکستان واپس اس لیے نہیں آتیں کہ اپ کے بچے چھوٹے ہیں اور آپ اس وجہ سے بزدل ہو گئی ہیں، تو وہ سخت رنجیدہ ہو گئیں اور کہنے لگیں آپ نے یہ سوال اس خاتون سے کیسے کر لیا جس کے باپ کو پھانسی دی گئی، جس کے بھائی قتل کر دیے گئے اور جس کا خاوند پابند سلاسل ہے۔ وہ جذباتی ہو گئیں ناراض ہو گئیں تو میں نے کہا میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں تھا جواب حاصل کرنا تھا تو پھر وہ بولیں آپ میرے لیے مرتضیٰ اور شاہنواز جیسے ہو، اسی لیے میں زیادہ خفا ہوئی کہ تم بھی مجھ سے یہ سوال کرتے ہو، میں نے انہیں مطمئن کیا کہ یہ بھی سوال کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‘‘ بنام مرشد اپنی نظم نظرانہ سے چند اشعار :
تْو کٹھن پتھریلے راستوں کا مسافر ہے
تْو صحافت کے گہرے سمندر کا شناور ہے
یہ اذن تجھے اپنے مولیٰ سے ملا ہے
تْو صداقت کے پْل صراط سے گزرا ہے
کچھ شک نہیں اس میں کہ بڑا کام ہے ترا
تْو معتدل اور مدبر ہے بڑا نام ہے تیرا
تْو مْعلم و مرشد ہے صحافت و سماج کا
تْو توصل اور توکل ہے کل اور آج کا
شاہد کی یہ دعا ہیکہ خدا تجھ کو نوازے
علوم کی وہ لے جو دنیا کو ہلا دے