صدر آصف علی زرداری نے اعتراف کیا ہے کہ شدید گرمی میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں توانائی کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ہدایت کی کہ عوام کے صبر کو مزید آزمانے سے گریز کیا جائے۔ انکے بقول بجلی کے بحران کے مکمل حل کیلئے حکومت کو غیرمعمولی فیصلے کرنا ہوںگے۔
دوسری جانب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پمز کے دورے کے موقع پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کا بحران جذباتی نعرہ بازی اور عوام کو اکسانے سے حل نہیں ہوگا‘ اگر ہمارے جانے سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے تو ہم جانے کیلئے بھی تیار ہیں۔ ان کے بقول حکومت وسائل کی کمی کے باوجود جامع منصوبہ بندی کے تحت بجلی کے بحران پر قابو پانے کے اقدامات کر رہی ہے‘ انہوں نے اپیل کی کہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کیخلاف مظاہرے کرنے والے املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔
اس وقت بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ‘ بے روزگاری روز افزوں مہنگائی‘ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نام پر غیردانشمندانہ اضافہ اور دیگر شہری مسائل بالخصوص کراچی میں بارشوں کے پانی کا بروقت نکاس نہ ہونے سے شہریوں کیلئے پیدا ہونے والے سنگین مسائل کے باعث عوام الناس میں جس بے چینی اور اضطراب کی کیفیت نظر آرہی ہے اور وہ سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں کے دوران پرتشدد کارروائیوں اور گھیرائو جلائو پر اتر آئے ہیں‘ وہ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہی نہیں‘ گڈگورننس پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ مشرف کی جرنیلی آمریت کے دور سے عوام کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے جبکہ موجودہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے قائدین اس وقت اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے لوڈشیڈنگ کو حکومتی بداعمالیوں کا نتیجہ قرار دے کراور لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے دل خوش کن نعرے لگا کر اپنی سیاست چمکایا کرتے تھے۔ اب انکی اپنی حکومت کا سوا سال کے قریب عرصہ گزر چکا ہے‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس کی سنگینی میں بتدریج اضافہ بھی ہو رہا ہے اور غربت و مہنگائی کی شکل میں دیگر گوناں گوں مسائل بھی عوام کیلئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں۔ جرنیلی آمریت کے پیدا کردہ مسائل سے عاجز آئے عوام نے 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں خاموش انقلاب برپا کرکے جرنیلی آمریت کواسکے تمام حلیفوں اور حامیوں سمیت اس لئے مسترد کیا تھا اور سلطانی ٔ جمہور کی راہ ہموار کی تھی کہ انکے منتخب نمائندے منتخب فورموں اور اقتدار کے ایوانوں میں انکے بہتر مستقبل کیلئے مہنگائی‘ غربت اور لوڈشیڈنگ کے خاتمہ اور دیگر شہری مسائل کے حل کی جامع‘ ٹھوس اور دوررس نتائج کی حامل پالیسیاں وضع کریں گے اور فی الواقع اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھیں گے مگر بدقسمتی سے موجودہ سلطانی ٔ جمہور میں جرنیلی آمریت کی ملکی و قومی مفادات کے منافی پالیسیوں سے گلوخلاصی کرانا تو کجا‘ لوگوں کے گوناں گوں مسائل کے حل کیلئے بھی کسی فہم و تدبر کا مظاہرہ نہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں یہ مسائل مزید گھمبیر ہو گئے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سخت گرمی میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا ہی دوبھر نہیں کیا‘ لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہونے کے باعث قومی معیشت کی ترقی کا پہیہ بھی جامد کر دیا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث لوگ پہلے ہی غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے‘ لوڈشیڈنگ نے ان مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ نتیجتاً وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اپنے مسائل سے عاجز آکر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور جلائو گھیرائو سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ اس صورتحال میں بجائے اس کے کہ بجلی کے بحران اور غربت و مہنگائی سے متعلق عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی جامع اور قابل عمل پالیسی اختیار کرکے عوام کو بہتر مستقبل کی کوئی نوید سنائی جاتی‘ وزیراعظم اس مایوسی کا اظہار کرکے کہ ہمارے جانے سے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہوتا ہے تو ہم اس کیلئے بھی تیار ہیں۔ سلطانی ٔ جمہور سے عوام کی مزید بددلی کا اہتمام کر رہے ہیں۔ چنانچہ عوام بھی ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر وہ درپیش سنگین مسائل کے حل کی پوزیشن میں نہیں تو انہوں نے اقتدار قبول ہی کیوں کیا تھا اور اپنی انتخابی مہم کے دوران لوڈشیڈنگ اور غربت و مہنگائی سمیت عوامی مسائل کے حل کا نعرہ کیوں لگایا تھا؟ اگر وہ اسی وقت عوام پر واضح کر دیتے کہ جرنیلی آمریت کے پیدا کردہ یہ مسائل حل کرنے کی وہ پوزیشن میں نہیں تو ممکن ہے اپنی نئی حکومتی قیادت کے انتخاب کیلئے وہ کوئی بہتر فیصلہ کر پاتے جبکہ لوڈشیڈنگ سمیت عوام کو درپیش مسائل ایسے بھی نہیں کہ ان کا کوئی حل ممکن ہی نہ ہو۔ جہاں تک توانائی کے بحران کا معاملہ ہے‘ اس میں اب تک کے کم و بیش تمام حکمرانوں کی بے عملیوں اور بے تدبیریوں کا عمل دخل ہے‘ جنہوں نے آبی ذخائر موجود ہونے کے باوجود گزشتہ 35‘ چالیس برس سے ہائیڈل بجلی کی پیداوار کا کوئی ایک منصوبہ بھی نہیں بنایا اور منگلا‘ تریبلا ڈیم کی شکل میں ہائیڈل بجلی کے جو ذرائع ہمیں دستیاب ہیں‘ وہ بھی متعلقہ اداروں اور حکام کی روایتی غفلت کا شکار ہو کر ناکارہ ہو رہے ہیں۔ اگر قومی ترقی کے ضامن کالاباغ ڈیم کی اب تک تعمیر ہو چکی ہوتی تو قوم کو بجلی کے سنگین بحران سے دوچار ہونا پڑتا‘ نہ حکومت کو اس بحران کیخلاف سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا۔
واپڈا کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ملک کو اس وقت بجلی کی تقریباً 25 سو میگاواٹ کمی کا سامنا ہے جبکہ بجلی کی ضرورت ہر سال آٹھ سے دس فیصد بڑھ رہی ہے۔ اس صورتحال میں 2012ء تک ملک کو پانچ ہزار میگاواٹ اضافی بجلی کی ضرورت ہو گی جبکہ بجلی کی کمی سے قومی معیشت کو دو کھرب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے اور عوام الگ ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہو جاتا تو صرف اس ایک پراجیکٹ سے ملک کو 36 سو میگاواٹ تک سستی ہائیڈل بجلی دسیتاب ہو رہی ہوتی اور نجی تھرمل پاور پلانٹس سے مہنگی ترین تھرمل بجلی حاصل کرنے کی ضرورت بھی کبھی محسوس نہ ہوتی۔ اسکے ساتھ ساتھ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے پانچ لاکھ ایکڑ بنجر زمین بھی قابل کاشت ہو جاتی‘ نتیجتاً ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی مل جاتا اور حکومت کو قومی ترقی کے حامل اس پراجیکٹ سے سالانہ دو سے اڑھائی کھرب روپے کا ریونیو بھی حاصل ہو رہا ہوتا۔ بدقسمتی سے موجودہ حکمرانوں نے نہ صرف یہ کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا‘ بلکہ اس منصوبے کو یکسر ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا جس سے گھمبیر عوامی اور قومی مسائل کے حل کے سلسلہ میں حکومت کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بجلی کے بحران اور دیگر درپیش سنگین عوامی مسائل کی موجودگی میں حکومت مخالف عناصر کو بھی یقیناً مضطرب اور مشتعل عوام کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا موقع ملا ہو گا اور ممکن ہے کہ حالیہ گھیرائو جلائو‘ توڑ پھوڑ اور پرتشدد مظاہروں میں جن میں مسافر ٹرینوں کی بوگیوں‘ نجی اور پبلک ٹرانسپورٹ اور دوسری املاک کو جلانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا‘ حکومت مخالف عناصر کے عمل دخل کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا‘ تاہم اب عوام خود بھی میڈیا کے فعال کردار کی وجہ سے اپنے حقوق کے حصول و تحفظ کیلئے مستعد ہیں جنہیں مطمئن رکھنا بہرصورت حکومت کی ہی ذمہ داری بنتی ہے۔
حکومت کی کسی غلط حکمت عملی اور پالیسی کیخلاف احتجاج کا عوام اور انکے نمائندگان کو حق حاصل ہے تاہم اس احتجاج کو قانون اور شائستگی کے دائرے سے باہر نہیں نکلنے دینا چاہئے اور گھیرائو جلائو کی کسی صورت نوبت نہیں آنے دینی چاہئے کیونکہ ٹرینوں اور ٹرانسپورٹ سمیت جن املاک کو جلا کر خاکستر کیا جاتا ہے‘ وہ عوام ہی کو سہولتیں بہم پہنچا رہی ہوتی ہیں۔ جنہیں کسی قسم کا نقصان پہنچانا خود کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اس لئے جہاں عوام کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر لانے والی تاجر تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ احتجاج کو پرامن رکھیں اور قومی و نجی املاک کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے دیں‘ وہاں متعلقہ صوبائی حکومت اور انتظامی مشینری پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی قسم کی لاقانونیت نہ ہونے دے اور امن و امان پر سختی سے کنٹرول کرے۔ ساتھ ہی صدر اور وزیراعظم خورشید شاہ جیسے وزراء کو بھی لگام ڈالیں جو عوام کو یہ کہہ کر مزید مشتعل کر رہے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج کرنے والے بجلی چور ہیں۔ عوام کے اضطراب کا خاتمہ تو انکے مسائل حل کرنے سے ہی ممکن ہے‘ جس کیلئے اہل اقتدار کو فوری اور دوررس نتائج کے حامل منصوبوں کا آغاز کرنا چاہئے اور بالخصوص کالاباغ ڈیم پر مزید سیاست سے گریز کرکے اسکی تعمیر کا بیڑہ اٹھانا چاہئے۔ قومی تعمیر کے منصوبوں سے صرف نظر کرکے گڈگورننس کے تصور کو پختہ نہیں کیا جا سکتا‘ موجودہ احتجاجی مظاہرے بہرصورت حکمرانوں کیلئے نوشتۂ دیوار ہیں۔
مشرف کی سپریم کورٹ میں طلبی
مشرف کے 2؍ نومبر 2007ء کے ماورائے آئین اقدامات بشمول ایمرجنسی کے نفاذ‘ آئینی عدلیہ کی برطرفی اور پی سی او ججوں کے تقرر کیخلاف کیس کی سماعت کرنیوالے سپریم کورٹ کے 14 رکنی وسیع تر بینچ نے اس کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو 29؍ جولائی کیلئے طلب کرلیا ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کے روبرو پیش ہو کر اپنے 2 نومبر کے اقدامات کی وضاحت کریں۔
سابق جج سپریم کورٹ مسٹر جسٹس وجیہہ الدین احمد اور سابق اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم سمیت قانونی اور آئینی ماہرین نے جنرل مشرف کو طلب کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کو خوش آئند اور اہم پیش رفت قرار دیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل سردار لطیف خان کھوسہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف اور انکے 2 نومبر کے اقدامات سے حکومت کی لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کیس میں مشرف کا دفاع نہیں کیا جائیگا‘ وہ اپنے نفع نقصان کے خود ذمہ دار ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں آئینی عدلیہ کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد پر سابقہ فوجی حکمرانوں کے ماورائے آئین اقدامات کو عدالتی فیصلوں کے ذریعہ حاصل ہونیوالے آئینی تحفظات کیخلاف ازخود کارروائی کے اختیارات کو بروئے کار لانا بلاشبہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس سے آئندہ کیلئے طالع آزماء فوجی جرنیلوں کا ماورائے آئین اقدامات کا راستہ رک جائیگا۔ اس سلسلہ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کا یہ موقف حوصلہ افزا ہے کہ ایمرجنسی کو جواز فراہم کرنے والا عدالتی فیصلہ ختم کئے بغیر جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی‘ اسی طرح چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف کا یہ کہنا بھی عدلیہ میں کتھارسس کے عمل کے آغاز کی تصدیق ہے کہ نظریہ ضرورت اور پی سی او کے تحت آمریت اور اسکے اقدامات کو تحفظ دینا شرمناک فعل ہے۔ اس تناظر میں عدالت عظمٰی کے وسیع تر بینچ کی جانب سے سابق فوجی آمر مشرف کو وضاحت کیلئے طلب کرنا درحقیقت آمریت کو آئندہ کیلئے پنپنے نہ دینے کا حوصلہ افزا پیغام ہے جس میں حکومت کو جنرل مشرف کی عدالت میں پیشی کو یقینی بنانے کے ہرممکن اقدامات کرنے چاہئیں اور ضروری ہے کہ سفارتی ذرائع بروئے کار لا کریا انٹرپول کی خدمات حاصل کرکے مشرف کو ملک واپس لایا جائے تاکہ انکی پیشی کے عدالتی احکام کی تعمیل ہو سکے۔ مشرف کو خود بھی سپریم کورٹ کے احکام کی تعمیل سے گریز نہیں کرنا چاہئے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے 2 نومبر کے اقدامات ملکی اور قومی مفاد میں کئے تھے جس کا وہ اکثر دعویٰ بھی کرتے ہیں‘ تو وہ اس کیس میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں جس کیلئے انہیں اپنی مرضی کے وکلاء کی خدمات حاصل ہو سکتی ہیں۔
رحمان ملک اور ڈرون حملے
وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ جمہوریت کے چیمپئن امریکہ کو ہماری اسمبلیوں کی آواز پر کان دھرنے اور پاکستان میں حملے بند کرنے چاہئیں۔ پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے ڈرون حملوں کیخلاف قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں۔ پیرس میں ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے رحمن ملک نے مزید کہا کہ امریکہ کو ہمارے ملک سے اٹھنے والی آوازیں سننی چاہئیں۔ امریکی ڈرون حملوں کیخلاف صدر وزیراعظم اور وزراء کی طرف سے درخواست نما بیان آتے رہتے ہیں جن میں تان ’’امریکہ ڈرون حملے نہ کرے‘‘ پر ٹوٹتی ہے۔ عوامی سطح پر ان حملوں کیخلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ آرمی چیف نے بھی ذرا تلخ بیان دیا تھا اس کو بھی امریکہ نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ آج رحمن ملک نے بھی آئیں بائیں شائیں قسم کا بیان دیا ہے اور اس بیان کے بعد ایک دن میں 6 ڈرون حملے کر دئیے گئے۔ یہ ڈرون حملے بیانات اور درخواستوں سے بند نہیں ہونگے۔ پارلیمنٹ کسی بھی جارحیت کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کی قرارداد منظور کر چکی ہے۔ پاک فضائیہ کے سربراہ وقتاً فوقتاً اظہار کرتے رہتے ہیں کہ پاک فضائیہ ڈرونز کو گرانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے‘ صرف حکومتی اجازت کی ضرورت ہے۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے حکومت اپنی ذمہ داری سے فرار کی مرتکب ہو رہی ہے۔ قومی غیرت اور حمیت کا بھی تقاضا ہے کہ حکومت ڈرون حملوں سمیت کسی بھی قسم کی غیر ملکی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے اور پاکستان داخل ہونے والے کسی جہاز اور ہیلی کاپٹر کو مار گرایا جائے اس کے سوا ڈرون حملے روکنے کا کوئی حل نہیں ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پمز کے دورے کے موقع پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کا بحران جذباتی نعرہ بازی اور عوام کو اکسانے سے حل نہیں ہوگا‘ اگر ہمارے جانے سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے تو ہم جانے کیلئے بھی تیار ہیں۔ ان کے بقول حکومت وسائل کی کمی کے باوجود جامع منصوبہ بندی کے تحت بجلی کے بحران پر قابو پانے کے اقدامات کر رہی ہے‘ انہوں نے اپیل کی کہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کیخلاف مظاہرے کرنے والے املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔
اس وقت بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ‘ بے روزگاری روز افزوں مہنگائی‘ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نام پر غیردانشمندانہ اضافہ اور دیگر شہری مسائل بالخصوص کراچی میں بارشوں کے پانی کا بروقت نکاس نہ ہونے سے شہریوں کیلئے پیدا ہونے والے سنگین مسائل کے باعث عوام الناس میں جس بے چینی اور اضطراب کی کیفیت نظر آرہی ہے اور وہ سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں کے دوران پرتشدد کارروائیوں اور گھیرائو جلائو پر اتر آئے ہیں‘ وہ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہی نہیں‘ گڈگورننس پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ مشرف کی جرنیلی آمریت کے دور سے عوام کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے جبکہ موجودہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے قائدین اس وقت اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے لوڈشیڈنگ کو حکومتی بداعمالیوں کا نتیجہ قرار دے کراور لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے دل خوش کن نعرے لگا کر اپنی سیاست چمکایا کرتے تھے۔ اب انکی اپنی حکومت کا سوا سال کے قریب عرصہ گزر چکا ہے‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس کی سنگینی میں بتدریج اضافہ بھی ہو رہا ہے اور غربت و مہنگائی کی شکل میں دیگر گوناں گوں مسائل بھی عوام کیلئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں۔ جرنیلی آمریت کے پیدا کردہ مسائل سے عاجز آئے عوام نے 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں خاموش انقلاب برپا کرکے جرنیلی آمریت کواسکے تمام حلیفوں اور حامیوں سمیت اس لئے مسترد کیا تھا اور سلطانی ٔ جمہور کی راہ ہموار کی تھی کہ انکے منتخب نمائندے منتخب فورموں اور اقتدار کے ایوانوں میں انکے بہتر مستقبل کیلئے مہنگائی‘ غربت اور لوڈشیڈنگ کے خاتمہ اور دیگر شہری مسائل کے حل کی جامع‘ ٹھوس اور دوررس نتائج کی حامل پالیسیاں وضع کریں گے اور فی الواقع اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھیں گے مگر بدقسمتی سے موجودہ سلطانی ٔ جمہور میں جرنیلی آمریت کی ملکی و قومی مفادات کے منافی پالیسیوں سے گلوخلاصی کرانا تو کجا‘ لوگوں کے گوناں گوں مسائل کے حل کیلئے بھی کسی فہم و تدبر کا مظاہرہ نہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں یہ مسائل مزید گھمبیر ہو گئے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سخت گرمی میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا ہی دوبھر نہیں کیا‘ لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہونے کے باعث قومی معیشت کی ترقی کا پہیہ بھی جامد کر دیا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث لوگ پہلے ہی غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے‘ لوڈشیڈنگ نے ان مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ نتیجتاً وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اپنے مسائل سے عاجز آکر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور جلائو گھیرائو سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ اس صورتحال میں بجائے اس کے کہ بجلی کے بحران اور غربت و مہنگائی سے متعلق عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی جامع اور قابل عمل پالیسی اختیار کرکے عوام کو بہتر مستقبل کی کوئی نوید سنائی جاتی‘ وزیراعظم اس مایوسی کا اظہار کرکے کہ ہمارے جانے سے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہوتا ہے تو ہم اس کیلئے بھی تیار ہیں۔ سلطانی ٔ جمہور سے عوام کی مزید بددلی کا اہتمام کر رہے ہیں۔ چنانچہ عوام بھی ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر وہ درپیش سنگین مسائل کے حل کی پوزیشن میں نہیں تو انہوں نے اقتدار قبول ہی کیوں کیا تھا اور اپنی انتخابی مہم کے دوران لوڈشیڈنگ اور غربت و مہنگائی سمیت عوامی مسائل کے حل کا نعرہ کیوں لگایا تھا؟ اگر وہ اسی وقت عوام پر واضح کر دیتے کہ جرنیلی آمریت کے پیدا کردہ یہ مسائل حل کرنے کی وہ پوزیشن میں نہیں تو ممکن ہے اپنی نئی حکومتی قیادت کے انتخاب کیلئے وہ کوئی بہتر فیصلہ کر پاتے جبکہ لوڈشیڈنگ سمیت عوام کو درپیش مسائل ایسے بھی نہیں کہ ان کا کوئی حل ممکن ہی نہ ہو۔ جہاں تک توانائی کے بحران کا معاملہ ہے‘ اس میں اب تک کے کم و بیش تمام حکمرانوں کی بے عملیوں اور بے تدبیریوں کا عمل دخل ہے‘ جنہوں نے آبی ذخائر موجود ہونے کے باوجود گزشتہ 35‘ چالیس برس سے ہائیڈل بجلی کی پیداوار کا کوئی ایک منصوبہ بھی نہیں بنایا اور منگلا‘ تریبلا ڈیم کی شکل میں ہائیڈل بجلی کے جو ذرائع ہمیں دستیاب ہیں‘ وہ بھی متعلقہ اداروں اور حکام کی روایتی غفلت کا شکار ہو کر ناکارہ ہو رہے ہیں۔ اگر قومی ترقی کے ضامن کالاباغ ڈیم کی اب تک تعمیر ہو چکی ہوتی تو قوم کو بجلی کے سنگین بحران سے دوچار ہونا پڑتا‘ نہ حکومت کو اس بحران کیخلاف سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا۔
واپڈا کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ملک کو اس وقت بجلی کی تقریباً 25 سو میگاواٹ کمی کا سامنا ہے جبکہ بجلی کی ضرورت ہر سال آٹھ سے دس فیصد بڑھ رہی ہے۔ اس صورتحال میں 2012ء تک ملک کو پانچ ہزار میگاواٹ اضافی بجلی کی ضرورت ہو گی جبکہ بجلی کی کمی سے قومی معیشت کو دو کھرب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے اور عوام الگ ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہو جاتا تو صرف اس ایک پراجیکٹ سے ملک کو 36 سو میگاواٹ تک سستی ہائیڈل بجلی دسیتاب ہو رہی ہوتی اور نجی تھرمل پاور پلانٹس سے مہنگی ترین تھرمل بجلی حاصل کرنے کی ضرورت بھی کبھی محسوس نہ ہوتی۔ اسکے ساتھ ساتھ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے پانچ لاکھ ایکڑ بنجر زمین بھی قابل کاشت ہو جاتی‘ نتیجتاً ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی مل جاتا اور حکومت کو قومی ترقی کے حامل اس پراجیکٹ سے سالانہ دو سے اڑھائی کھرب روپے کا ریونیو بھی حاصل ہو رہا ہوتا۔ بدقسمتی سے موجودہ حکمرانوں نے نہ صرف یہ کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا‘ بلکہ اس منصوبے کو یکسر ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا جس سے گھمبیر عوامی اور قومی مسائل کے حل کے سلسلہ میں حکومت کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بجلی کے بحران اور دیگر درپیش سنگین عوامی مسائل کی موجودگی میں حکومت مخالف عناصر کو بھی یقیناً مضطرب اور مشتعل عوام کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا موقع ملا ہو گا اور ممکن ہے کہ حالیہ گھیرائو جلائو‘ توڑ پھوڑ اور پرتشدد مظاہروں میں جن میں مسافر ٹرینوں کی بوگیوں‘ نجی اور پبلک ٹرانسپورٹ اور دوسری املاک کو جلانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا‘ حکومت مخالف عناصر کے عمل دخل کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا‘ تاہم اب عوام خود بھی میڈیا کے فعال کردار کی وجہ سے اپنے حقوق کے حصول و تحفظ کیلئے مستعد ہیں جنہیں مطمئن رکھنا بہرصورت حکومت کی ہی ذمہ داری بنتی ہے۔
حکومت کی کسی غلط حکمت عملی اور پالیسی کیخلاف احتجاج کا عوام اور انکے نمائندگان کو حق حاصل ہے تاہم اس احتجاج کو قانون اور شائستگی کے دائرے سے باہر نہیں نکلنے دینا چاہئے اور گھیرائو جلائو کی کسی صورت نوبت نہیں آنے دینی چاہئے کیونکہ ٹرینوں اور ٹرانسپورٹ سمیت جن املاک کو جلا کر خاکستر کیا جاتا ہے‘ وہ عوام ہی کو سہولتیں بہم پہنچا رہی ہوتی ہیں۔ جنہیں کسی قسم کا نقصان پہنچانا خود کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اس لئے جہاں عوام کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر لانے والی تاجر تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ احتجاج کو پرامن رکھیں اور قومی و نجی املاک کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے دیں‘ وہاں متعلقہ صوبائی حکومت اور انتظامی مشینری پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی قسم کی لاقانونیت نہ ہونے دے اور امن و امان پر سختی سے کنٹرول کرے۔ ساتھ ہی صدر اور وزیراعظم خورشید شاہ جیسے وزراء کو بھی لگام ڈالیں جو عوام کو یہ کہہ کر مزید مشتعل کر رہے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج کرنے والے بجلی چور ہیں۔ عوام کے اضطراب کا خاتمہ تو انکے مسائل حل کرنے سے ہی ممکن ہے‘ جس کیلئے اہل اقتدار کو فوری اور دوررس نتائج کے حامل منصوبوں کا آغاز کرنا چاہئے اور بالخصوص کالاباغ ڈیم پر مزید سیاست سے گریز کرکے اسکی تعمیر کا بیڑہ اٹھانا چاہئے۔ قومی تعمیر کے منصوبوں سے صرف نظر کرکے گڈگورننس کے تصور کو پختہ نہیں کیا جا سکتا‘ موجودہ احتجاجی مظاہرے بہرصورت حکمرانوں کیلئے نوشتۂ دیوار ہیں۔
مشرف کی سپریم کورٹ میں طلبی
مشرف کے 2؍ نومبر 2007ء کے ماورائے آئین اقدامات بشمول ایمرجنسی کے نفاذ‘ آئینی عدلیہ کی برطرفی اور پی سی او ججوں کے تقرر کیخلاف کیس کی سماعت کرنیوالے سپریم کورٹ کے 14 رکنی وسیع تر بینچ نے اس کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو 29؍ جولائی کیلئے طلب کرلیا ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کے روبرو پیش ہو کر اپنے 2 نومبر کے اقدامات کی وضاحت کریں۔
سابق جج سپریم کورٹ مسٹر جسٹس وجیہہ الدین احمد اور سابق اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم سمیت قانونی اور آئینی ماہرین نے جنرل مشرف کو طلب کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کو خوش آئند اور اہم پیش رفت قرار دیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل سردار لطیف خان کھوسہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف اور انکے 2 نومبر کے اقدامات سے حکومت کی لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کیس میں مشرف کا دفاع نہیں کیا جائیگا‘ وہ اپنے نفع نقصان کے خود ذمہ دار ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں آئینی عدلیہ کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد پر سابقہ فوجی حکمرانوں کے ماورائے آئین اقدامات کو عدالتی فیصلوں کے ذریعہ حاصل ہونیوالے آئینی تحفظات کیخلاف ازخود کارروائی کے اختیارات کو بروئے کار لانا بلاشبہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس سے آئندہ کیلئے طالع آزماء فوجی جرنیلوں کا ماورائے آئین اقدامات کا راستہ رک جائیگا۔ اس سلسلہ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کا یہ موقف حوصلہ افزا ہے کہ ایمرجنسی کو جواز فراہم کرنے والا عدالتی فیصلہ ختم کئے بغیر جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی‘ اسی طرح چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف کا یہ کہنا بھی عدلیہ میں کتھارسس کے عمل کے آغاز کی تصدیق ہے کہ نظریہ ضرورت اور پی سی او کے تحت آمریت اور اسکے اقدامات کو تحفظ دینا شرمناک فعل ہے۔ اس تناظر میں عدالت عظمٰی کے وسیع تر بینچ کی جانب سے سابق فوجی آمر مشرف کو وضاحت کیلئے طلب کرنا درحقیقت آمریت کو آئندہ کیلئے پنپنے نہ دینے کا حوصلہ افزا پیغام ہے جس میں حکومت کو جنرل مشرف کی عدالت میں پیشی کو یقینی بنانے کے ہرممکن اقدامات کرنے چاہئیں اور ضروری ہے کہ سفارتی ذرائع بروئے کار لا کریا انٹرپول کی خدمات حاصل کرکے مشرف کو ملک واپس لایا جائے تاکہ انکی پیشی کے عدالتی احکام کی تعمیل ہو سکے۔ مشرف کو خود بھی سپریم کورٹ کے احکام کی تعمیل سے گریز نہیں کرنا چاہئے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے 2 نومبر کے اقدامات ملکی اور قومی مفاد میں کئے تھے جس کا وہ اکثر دعویٰ بھی کرتے ہیں‘ تو وہ اس کیس میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں جس کیلئے انہیں اپنی مرضی کے وکلاء کی خدمات حاصل ہو سکتی ہیں۔
رحمان ملک اور ڈرون حملے
وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ جمہوریت کے چیمپئن امریکہ کو ہماری اسمبلیوں کی آواز پر کان دھرنے اور پاکستان میں حملے بند کرنے چاہئیں۔ پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے ڈرون حملوں کیخلاف قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں۔ پیرس میں ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے رحمن ملک نے مزید کہا کہ امریکہ کو ہمارے ملک سے اٹھنے والی آوازیں سننی چاہئیں۔ امریکی ڈرون حملوں کیخلاف صدر وزیراعظم اور وزراء کی طرف سے درخواست نما بیان آتے رہتے ہیں جن میں تان ’’امریکہ ڈرون حملے نہ کرے‘‘ پر ٹوٹتی ہے۔ عوامی سطح پر ان حملوں کیخلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ آرمی چیف نے بھی ذرا تلخ بیان دیا تھا اس کو بھی امریکہ نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ آج رحمن ملک نے بھی آئیں بائیں شائیں قسم کا بیان دیا ہے اور اس بیان کے بعد ایک دن میں 6 ڈرون حملے کر دئیے گئے۔ یہ ڈرون حملے بیانات اور درخواستوں سے بند نہیں ہونگے۔ پارلیمنٹ کسی بھی جارحیت کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کی قرارداد منظور کر چکی ہے۔ پاک فضائیہ کے سربراہ وقتاً فوقتاً اظہار کرتے رہتے ہیں کہ پاک فضائیہ ڈرونز کو گرانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے‘ صرف حکومتی اجازت کی ضرورت ہے۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے حکومت اپنی ذمہ داری سے فرار کی مرتکب ہو رہی ہے۔ قومی غیرت اور حمیت کا بھی تقاضا ہے کہ حکومت ڈرون حملوں سمیت کسی بھی قسم کی غیر ملکی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے اور پاکستان داخل ہونے والے کسی جہاز اور ہیلی کاپٹر کو مار گرایا جائے اس کے سوا ڈرون حملے روکنے کا کوئی حل نہیں ہے۔