بات چل نکلی ہے اب دیکھیںکہاں تک پہنچے
وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ صاحب بڑے تند و تیز لہجے میں میڈیا پر نشتر برسا رہے تھے ”ہم نے اس معاہدے کے تحت بھارت کو راہداری کہاں دی ہے، صرف افغانستان ہمارے راستے سے اپنی اشیاءلاکر واہگہ بارڈر پر بھارت کے حوالے کریگا۔ اس معاہدے میں بھارت کو ایسی کوئی سہولت نہیں دی گئی کہ وہ بھی اپنی اشیاءاسی طرح ہمارا زمینی راستہ استعمال کرکے افغانستان بھجوا سکے گا، مگر میڈیا نے طوفان اٹھا دیا ہے، ادارئیے لکھ مارے ہیں، ہمیں رگڑا دیا جا رہا ہے کہ ہم نے بھارت کو تجارت کی سہولت فراہم کردی ہے“۔
مخدوم امین فہیم تو ”معصوم“ تھے جنہوں نے اس معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے یہ بھی بیان فرما دیا تھا کہ بھارت ہمارے زمینی راستے سے نہیں، فضائی اور سمندری راستے سے اپنی اشیاءافغانستان بھجوا سکے گا۔ کائرہ صاحب کو اس معاہدے کے تحت بھارت کو دی گئی یہ سہولت نظر ہی نہیں آرہی جبکہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اس سہولت کی بھنک پڑ گئی ہوگی اس لئے انہوں نے یہ وضاحت کردی کہ ہم اس معاہدے کے تحت بھارت کو کوئی سہولت نہیں دیں گے۔ آپ بے شک بازو کو پیچھے سے گھما کر کان کو پکڑیں یا سیدھا پکڑ لیں۔ نتیجہ تو کان پکڑنے والا ہی سامنے آئیگا۔ اگر امریکہ اس معاہدے کو پچاس سال کے دوران اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دے رہا ہے تو بھائی صاحب آپ ذرا قوم کو بھی سمجھا دیں کہ معاہدہ تو آپ کے اور افغانستان کے مابین طے پایا ہے۔ اس پر امریکہ اپنے اطمینان کا اظہار کرنے والا کون ہوتا ہے اور بھارت کو اس معاہدے پر لُڈیاں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس معاہدے پر مذاکرات کیلئے اسلام آباد آنے والے افغان وفد میں امریکی سفیر کس حیثیت میں شامل ہوگئے اور امریکی وزیر خارجہ کو اس معاہدہ پر پاکستان اور افغانستان کے وزرائے تجارت کے دستخطوں کے وقت ان کے پیچھے سایہ بن کر کھڑے ہونے اور بے ساختہ تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔
اسکے علاوہ جو دوسرے سوالات قوم کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں ذرا ان کی بھی وضاحت فرما دیجئے اور وہ سوالات مندرجہ ذیل ہیں۔
-1 دنیا کا کون سا ایسا قانون ہے جس کے تحت دو ممالک کے مابین تجارت کا معاہدہ ہو اور ان میں سے ایک ملک کو پابند کیا جائے کہ وہ دوسرے ملک سے اس کی اشیاءلے تو سکتا ہے اسے اپنی اشیاءفروخت نہیں کرسکتا؟
-2 اگر بھارت کو اس معاہدے کے تحت اپنی اشیاءافغانستان بھجوانے کیلئے صرف فضائی اور سمندری راستہ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے تو کیا واہگہ بارڈر سے بھارتی اشیاءفضا میں تیرتے ہوئے کراچی کے ہوائی اڈے اور بندرگاہ تک پہنچیں گی؟
-3 افغانستان کے ٹرک اور کنٹینر بھارت کیلئے اپنا سامان واہگہ بارڈر پر اتار کر کیا خالی ہاتھ واہگہ بارڈر سے جلال آباد جایا کریں گے؟
-4 بھارت اور افغانستان کو اپنی باہمی تجارت کیلئے پاکستان کے زمینی، فضائی اور سمندری راستے کو استعمال کرنے کی سہولت مل رہی ہے تو کیا اس نقل و حمل میں پاکستان کی منڈیوں پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔
حضور والا، نہ تالی ایک ہاتھ سے بجتی ہے نہ تجارت یکطرفہ ہوسکتی ہے۔ آپ قوم کو بےوقوف سمجھ رہے ہوں تو یہ آپ کے فہم و ادراک کا معاملہ ہے ورنہ تو لین دین کے اسرار و رموز کی ایک عام فہم آدمی کو بھی سمجھ ہوتی ہے اس لئے بھارت ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی بنیاد پر ہمارے راستے سے افغان اشیاءکی خریداری کریگا تو اسے اسی راستے سے اپنی اشیاءافغانستان کو فروخت کرنے سے کون روکے گا اور پھر افغانستان کی اتنی استعداد کہاں کہ وہ بھارت سے خریدی گئی تمام اشیاءاپنی منڈیوں میں پھیلا سکے۔ یہ ساری اشیاءافغان منڈیوں تک جانے سے پہلے ہی ہماری منڈیوں میں آیا کریں گی جس کا افغان تاجروں کو ڈبل منافع مل جائیگا۔ چنانچہ اس معاہدے کا یہ تو ہمیں بالواسطہ نقصان پہنچے گا اور براہ راست نقصان یہ ہوگا کہ بھارت افغانستان کی منڈیوں میں رسائی حاصل کرلےگا تو پھر افغانستان کو ہم سے اشیاءخریدنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوگی۔ چنانچہ ہم سالانہ 2 ارب روپے کا جو زرمبادلہ افغانستان کے ساتھ تجارت کے ذریعے کما رہے ہیں، اب سمجھیں اس میں بھی گرہ لگ گئی۔
یہ تو ہماری معیشت کا نقصان ہے۔ جب اس معاہدے کی آڑ میں بھارت کو اپنے اسلحہ بارود سمیت اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد اور جاسوس ہماری سرزمین پر براہ راست اتارنے کا موقع ملے گا تو ہماری سالمیت کو پہنچنے والے نقصان سے لگ پتہ جائیگا کہ ہمیں یہ معاہدہ کس بھاﺅ پڑا ہے اور پھر اس معاہدے پر امریکہ بھارت کی باچھیں کیوں کھلی ہوئی ہیں؟ جنرل (ر) حمید گل نے اسکی وضاحت کردی ہے کہ یہ معاہدہ درحقیقت افغانستان کی وہ قیمتی معدنیات بھارت اور اسکے وسیلے سے امریکہ کو فراہم کرنے کا معاہدہ ہے جو افغانستان میں حال ہی میں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ قیمتی معدنیات ایسی ہیں کہ آدھی دنیا کو توانائی سے مالامال کرسکتی ہیں۔ پاکستان کی راہداری کے صدقے یہ ساری معدنیات امریکہ اور بھارت کے ہاتھ لگ جائیں گی تو گزشتہ پچاس سال میں امریکہ کیلئے اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے۔ آپ اپنی جانب کھلنے والے خزانے کا رخ خود ہی دھکا دیکر دوسری جانب موڑ رہے ہیں تو آپ کی بصیرت پہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جائیں یا سر پیٹا جائے؟ آپ خود ہی فیصلہ کرلیں۔ قوم تو اپنے تئیں فیصلہ کئے بیٹھی ہے۔